عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 100
قاسم سرنگ میں داخل ہوا تو اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرنے پر مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور مشعل کی روشنی میں تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ بڑھتے بڑھتے اچانک اسے خیال آیا کہ یہاں مکروہ شاگال بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔اور پھر یہی وقت تھا جب شاگال اس کے سامنے تھا۔ وہ دراصل دو آنکھیں تھیں جو چند قدم کے فاصلے پر قاسم کو گھور رہی تھیں۔ انہی دو آنکھوں کی دہشت نے داروغہ شاہی کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ گویا شاگال ابھی تک سرنگ میں ہی موجود تھا۔ قاسم کے اعصاب تن گئے اور اسنے داروغہ شاہی کی جو تلوار اٹھائی تھی اسے بے نیام کر لیا۔ جبکہ قاسم کے بائیں ہاتھ میں چلتی ہوئی مشعل بھی تھی اور بھاری بھرکم ڈنڈا بھی تھا۔ یہ دونوں اشیاء ایک ہاتھ سے پکڑنا قاسم کے لئے مشکل ہو رہا تھا چنانچہ قاسم نے ڈنڈے اور مشعل میں سے صرف مشعل کا انتخاب کیا اور شاگال کے منحوس ڈنڈے کو ایک طرف پھینک دیا۔ قاسم نے ڈنڈا پھینکا۔ لیکن اگلے لمحے ایک منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہی دو سرخ آنکھیں کسی کالی بلی کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں ایک دم ڈنڈے کی جانب لپکیں اور پھر قاسم نے دیکھا کہ ایک بڑا سا سیاہ رنگ کا بندر جھپٹ کر شاگال کے عصاء تک پہنچا اور شاگال کے اعصاء کو اٹھا کر بجلی کی رفتار سے الٹے قدموں بھاگ گیا۔ اس تاریک اور بھیانک سرنگمیں سرخ آنکھوں والا بندر دیکھ کر قاسم کے پسینے چھوٹ گئے ۔ قاسم نے اپنی تلوار ہوا میں لہرائی اور بندر پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ لیکن زندان کی سرنگ کا وہ پراسرار بندر پبلک جھپکتے میں غائب ہو چکا تھا۔ قاسم دیر تک کسی چیتے کی طرح مستعد کھڑا رہا لیکن اب سرنگ میں مکمل خاموشی تھی۔ وہ چمکتی ہوئی سرخ آنکھیں بھی اب اپنی جگہ موجود نہ تھیں۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 99پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم نے سوچا کہ شاگال کے اعصاء میں کوئی خاص بات تھی۔ تبھی تو اس کا پراسرار بندر ڈنڈا واپس حاصل کرنے کے لئے سرنگ میں موجود تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو قاسم کو ایسے لگاجیسے شاگال نے بندر کا روپ دھار لیا ہو لیکن پھر اس نے اپنے سر کو جھٹکا اور خود کو سمجھایا کہ یہ شاگال کا پالتو بندر تھا جو اسکا عصاء لینے کے لیے موجود تھا قاسم نے محسوس کیا جیسے اب سرنگ میں کوئی نہ تھا۔ وہ تیزی سے باہر کی طرف نکلتا چلا گیا۔۔۔اور چند ساعت بعد وہ آواز تھا۔
***
مقدس نقشہ
قاسم کے فرارکی خبر قیصر روم پر برق بن کر گری۔ پرانے اور تجربہ کار داروغہ شاہی کی موت نے ایوان سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرار کے واقعہ کی تفصیل معلوم ہوئی تو قیصر روم کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اور پھر جب اسے محافظ سپاہیوں نے یہ بتایا کہ سب سے پہلے تہہ خانے میں ایک سرخ آنکھوں والا دیو داخل ہوا تھا۔ تو قیصر روم کا دھیان فوراً اپنے خواب کی طرف بٹ گیا تھا۔ مارسی قیصر کو یہ تعبیر بتا چکی تھی کہ جب تک سرخ آنکھوں والا دیو نما انسان شہنشاہ خود قتل نہیں کرے گا قسطنطنیہ کی نجات ممکن نہیں۔ قیصر بھی شاگال کو ہی اپنے خواب والا دیو سمجھتا تھا۔ قاسم کی گرفتاری کے روز ’’آیا صوفیاء‘‘ میں قیصر شاگال کو دیکھتے ہی مارسی کو بتائی ہوئی تعبیر کے مطابق قتل کرنے کے لیے اٹھنا چاہتا تھا۔ لیکن شاگال کی خطرناک چمکدار آنکھوں نے اس روز قیصر کو اپنے سحرمیں جکڑ لیا اور آج خبر ملی تھی کہ سرخ آنکھوں والا دیو قاسم کے فرار سے پہلے تہہ خانے میں دیکھا گیا۔ اب قیصر کو مارسی کی تعبیر پر دل سے یقین آنے لگا۔ کیونکہ قاسم کا فرار ان نازک ابام میں قیصر روم کے لئے بہت برا شگون تھا۔
قیصر کے قاصد اور جاسوس اسے سلطان محمد خان کے لشکر کی ایک ایک خبر پہنچا رہے تھے۔ سلطانی لشکر ’’اور نہ‘‘ سے چل پڑا تھا۔ سردیاں گزرنے والی تھیں۔ ادرنہ سے اسلامی افواج روانہ ہوئیں تو اہل شہردور تک اپنے لشکر کو الوداع کہنے کے لئے آئے ان کا نوجوان اور محبوب سلطان محمد خان ثانی بن مراد خان ثانی ایک عظیم تاریخی مہم پر روانہ ہو رہا تھا۔ سلطان کے لشکر کا ہر سپاہی اپنے آپ کو اس مبارک لشکر کا حصہ سمجھ رہا تھا۔ جسے رسول کریم ﷺ نے سب سے اچھا لشکر قرار دیا تھا۔ لشکر نے پہلا پڑاؤ صرف پچاس کوس کے فاصلے پر کرنا تھا۔ سلطان کا ہر اول دستہ جو ینی چری کے بہترین اور بہادر شہسواروں کا مجموعہ تھا۔ عجب شاہانہ انداز میں سب سے آگے آگے چل رہا تھا۔ جاگیرداروں کی فراہم کردہ فوج کوملا کر سلطانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔
اٹھلا ٹھلا کر چلتے ہوئے شہسواروں کے عقب میں بڑے اسلحے اور بھاری توپوں کی گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ ان کے پیچھے پیدل افواج کا زرہ پوش دستہ عجب سماں پیش کر رہا تھا۔ ینی چری کے ہر وال کی سپہ سالاری پر ’’آغا حسن‘‘ دائیں بازو پر ’’احمد کدک پاشا‘‘ اور بائیں بازو پر ’’محمود پاشا‘‘ تھے۔ قلب لشکر میں خود سلطان ایک قد آور سفید گھوڑے پر سوار تمام افواج کی کمان کر رہا تھا۔ لشکر کے پیچھے پیچھے سینکڑوں بیل گاڑیاں، گدھا گاڑیاں اور بے شمار اونٹ تھے جن پر لشکر کے لئے رسد کا سامان لدا تھا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے ’’ادرنہ‘‘ کی نوجوان مسلمان لڑکیوں کا ایک بڑا دستہ تھا۔ جس کی کمان بوسنیائی شہزادی ۔۔۔حمیرا کے ہاتھ میں تھی۔ اس تاریخی لشکر میں شامل ہونے کی سعادت سے قاسم بن ہشام کا بڑا بھائی ’’طاہر‘‘ بھی محروم نہ رہا۔ اور اس طرح قاسم کا پورا خاندان قسطنطنیہ کے فاتح لشکر میں شامل ہونے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ طاہر کے دونوں بیٹے عمر اور علی اب بچے نہیں بلکہ نو عمر لڑکے تھے۔ جو ننھے مجاہدوں کے طور پر لشکر کے خدام میں شامل کر لئے گئے تھے۔ بوڑھے عباس کی بیٹی ’’مریم‘‘ بھی مرہم پٹی کرنے والی عورتوں میں شامل تھی۔
لشکر میں دیکھنے کے لائق سب سے حسین چیز پیتل کی چمکدار وہ توپ تھی جس کے پہلو میں ایک محفوظ نشست پر عظیم آہن گر’’اربان‘‘ براجمان تھا۔ یہ دیو ہیکل توپ جہاں سے گزرتی سلطان محمد خان کی فتح کا اعلان کرتی جاتی۔ اسلامی افواج تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پڑاؤ کرتی ہوئی قسطنطنیہ کی جانب بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
یہ لشکر تھا۔ وہی لشکر جو قسطنطنیہ پر فیصلہ کن حملہ کرنے جا رہا تھا۔ اسی لشکر کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے بشارت دی تھی۔
(ترجمہ: تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے۔ پس بہتر امیر اس کا امیر ہوگا۔ اور بہتر لشکر وہ لشکر ہوگا۔)
اسی لشکر کاایک بڑا حصہ عثمانی بحریہ پر مشتمل تھا۔ جس کا امیر البحر سلطان محمد خان نے ایک پرانے جنگجو ملاح سردار ’’بلوط اغلن‘‘ کو مقرر کیا۔ سلطان کے بیڑے میں زیادہی تر جہاز اور کشتیاں بالکل نئے نئے بنے ہوئے تھے۔ سلطانی بحریہ کا ہر اول عباس کی قیادت میں پہلے ہی آبنائے باسفورس کی ناکہ بندی کر چکا تھا۔ عثمانی لشکر کی آمد کا سن کر اہل قسطنطنیہ خوف اور پریشانی کا بری طرح شکار ہو چکے تھے۔ قسطنطنیوی افواج کا سپہ سالار نوٹاراس اپنا غم غلط کرنے کے لئے شراب و کباب کا سہارا لے رہا تھا۔ شہنشاہ دوسرے ممالک کی کمک کا منتظر تھا۔ جبکہ عام عوام شب و روز اس خطرے کو ٹالنے کے لئے اپنے خداوند کے حضور گڑگڑا رہی تھی۔ ’’آیا صوفیاء‘‘ میں ان دنوں بھیڑ رہتی۔ خصوصاً اتوار کے روز چرچ میں عبادت کے لیے کوئی نشست خالی نہ ملتی۔
اور پھر اتوار کی ایک صبح جب قسطنطنیہ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ آیا صوفیاء میں عبادت کے لئے آنے والوں کا خوب رش تھا۔ سونیا اپنے کمرے سے نکل کر چرچ کے ہال میں آئی۔ وہ بھی اپنے خداوند کے حضور گڑگڑانا چاہتی تھی۔ وہ اپنے محبوب کی رہائی کے لئے خداوند کی منتیں کرنے آئی تھی۔ اس کا دل چور چور تھا۔ جب سے قاسم گرفتار ہوا تھا۔ سونیا کی زندگی تاریک ہوگئی تھی۔ لیکن یہ تاریکی محض اداسی تھی۔ وگرنہ قاسم سے ملنے کے بعد سونیا کی تاریک زندگی میں روشنی آچکی تھی۔ اس روز سے لے کر اب تک اس نے خود کو کسی کے بستر کی زینت نہ بننے دیا تھا۔ وہ قاسم کی دیوانی تھی۔ اور یہ ثابت ہو جانے کے بعد بھی کہ قاسم مسلمان جاسوس ہے اس کی دیوانگی میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ وہ شب و روز شاہی زندان کی تاریک کال کوٹھڑی سے قاسم کی رہائی کے بارے میں سوچتی رہتی۔ لیکن وہ کیا کر سکتی تھی۔ وہ ایک معمولی خادمہ تھی۔ا س کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار تھا۔ اور وہ تھی اس کی حسین اور بھرپور جوانی۔۔۔لیکن اپنا دل ایرون کو دینے کے بعد وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اب کبھی اپنے جسم کو آلودہ نہ ہونے دے گی۔(جاری ہے)