عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 103
مارسی کے الفاظ اس کا ساتھ نہ دے رہے تھے۔ وہ ہر بات ایک ساتھ ہی کہہ دینا چاہتی تھی۔ ’’آیا صوفیاء‘‘ پر سکوت طاری تھا۔ مارسی کے کمرے میں چھوٹے شعلے کی مشعل روشن تھی۔ مارسی کے رخسار آنسوؤں سے تر تھے۔ اور قاسم کے ہونٹوں پر ایک عارفانہ سی مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ اس نے مارسی سے کہا۔
’’مارسی! اب بھول جاؤ۔۔۔جو وقت گزر گیا اسے یاد کرکے رونا لا حاصل ہے۔ میں آ گیا ہوں۔ میں تمہیں لینے کے لیے آیا ہوں۔ مجھے معلوم ہے تم نے بہت دکھ اٹھائے۔ ابھی ہمیں بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ ایک دوسرے کو بہت کچھ بتانا ہے اور بہت کچھ سنانا ہے۔ لیکن یہ باتیں یہاں نہیں ہو سکتیں شاگال ہمارا دشمن ہے۔ وہ میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ چکا ہے۔ اس لئے یہی مناسب ہے کہ ہم یہاں سے فی الفور نکل جائیں۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 102 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیکن مارسی تو قاسم کی خوشبو میں مست تھی۔ اسے اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں پر یقین نہ آرہا تھا۔ وہ گھڑی گھڑی عہد رفتہ کی یادوں میں کھو جاتی۔ قاسم کو اپنے قریب بیٹھے دیکھ کر اسے سب کچھ بھول گیا۔ وہ بار بار جذباتی ہو جاتی اور قاسم کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر رونے لگتی۔ اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔
’’قاسم! اب میں آپ سے جدا نہیں ہونا چاہتی۔ میں نے سات سال سولی پر لٹک کر کاٹے ہیں۔ سکندر بیگ کی ہوس پرستانہ دوست درازی سے بچنے کے لیے مجھے راہبہ بننا پڑا۔ اور سات سال تک بند کمرے میں چھپ کر نمازیں پڑھتی رہی۔ قاسم! میں مسلمان ہوں۔ میں اب بھی مسلمان ہوں۔‘‘
اور پھر مارسی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مارسی کا دل جذبات کی شدت سے لبریز تھا۔ وہ قاسم کے کندھے پر سر رکھ کر ہچکیاں لے رہی ہیں۔ اس عرصہ میں نہ جانے کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ دنیا بدل گئی تھی۔ سلطان مراد خان ثانی فوت ہوگیا تھا۔ قاسم کے والدین اور بھابھی اب اس دنیا میں نہیں تھے۔ بوسنیائی شہزادی قاسم کی بیوی تھی اور مارسی گزشتہ سال سال سے بظاہر عیسائی راہبہ بن کر درحقیقت شب و روز اسلامی عبادات میں مصروف رہی تھی۔ مارسی کے لیے یہ ملاقات کسی معجزے سے کم نہ تھی۔ وہ روتی رہی ہچکیاں اور سسکیاں لیتی رہی۔ آنسو بہاتی رہی اور بولتی رہی۔ وہ اپنے آپ ہی باتیں کر رہی تھی۔ اب قاسم پر سکون تھا۔ وہ تمام خطرات کو نظر انداز کرکے مارسی کے پہلو میں بیٹھا اس کی باتیں سن رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب مارسی نے قاسم کے بدن کو چھوا تھا۔ وہ ان پاکیزہ لمحات کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اب قاسم نے جانے کی بات چھوڑ دیا ور خاموشی سے بیٹھا مارسی کی قربت سے سرشار ہوتا رہا۔ مارسی بول رہی تھی۔ لیکن اس کے آنسو ابھی تک جاری تھے۔ وہ قاسم کو بتا رہی تھی۔
’’ابو جعفر مجھے زخمی حالت میں ادرنہ سے لے کر البانیہ پہنچ گیا۔ البانیہ کے شاہی محل میں سکندر بیگ ہمارا منتظر تھا۔ پہلے پہل سکندر بیگ میرے ساتھ بہت شائستگی سے پیش آیا۔ میرے زخموں کا مناسب علاج کیا گیا۔ مجھے اعلیٰ سے اعلیٰ سہولت مہیا کی گئی۔ لیکن میں جانتی تھی کہ سکندر بیگ یہ سب کچھ مجھے حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ وہ مجھے بچپن سے چاہتا تھا لیکن میں اس کی مکروہ صورت دیکھنے کو تیار نہ تھی۔ ابو جعفر مجھے اغواء کرکے سکندر بیگ کی خدمت میں اسی لئے لایا تھا۔ وہ مجھے سکندر بیگ کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ میں نے بیماری کے دنوں میں بھی اندازہ کر لیا تھا کہ سکندر بیگ مجھے صحت یاب ہونے کے بعد ضروری حاصل کر لے گا چاہے اسے زبردستی ہی کیوں نہ کرنی پڑے ۔ میرے زخم اچھے ہونے لگے لیکن میں دن رات یہی سوچتی رہتی کہ میں خود کو سکندر بیگ کی دست برد سے کیسے بچا سکتی ہوں؟ اور پھر بالآخر ایک روز میرے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا۔ میں نے ابو جعفر کو بلوایا اور اسے یہ بتایا کہ میں راہبہ بننا چاہتی ہوں۔ خادمہ بننا چاہتی ہوں۔ ابوجعفر کے لیے یہ خبر چونکا دینے والی تھی۔ میرا حربہ کامیاب رہا۔ ایک راہبہ کو تو کوئی بادشاہ بھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ اپنی آبرو اور آپ کی امانت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کا میرے پاس یہی ایک طریقہ تھا کہ میں راہبہ بن جاؤں۔ ابوجعفر جو درحقیقت بطریق ڈیمونان تھا۔ میرے اس فیصلے سے بہت مسرور ہوا لیکن سکندر بیگ کے لئے میرا یہ فیصلہ کسی صورت قابل قبول نہ تھا۔ وہ میرے راہبہ بننے کا سن کر بہت برافروختہ ہوا۔ لیکن بطریق ڈیمونان، آرتھوڈ کس کلیسا کا بہت بڑا پادری تھا اور مجھے یقین تھا کہ وہ میرے بچاؤ کے لیے سکندر بیگ سے ٹکر مول لے لے گا۔ اور پھر وہی ہوا۔ بطریق ڈیمونان نے بہت سے پادریوں کو اپنے ساتھ ملا کر سکندر بیگ کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا۔
بطریق ڈیمونان مجھے لے کر قسطنطنیہ چلا آیا اور میں یہاں ایک راہبہ بن کر رہنے لگی۔ یہاں ہر پادری اور راہب کی بری نظریں مجھ پر لگی ہوئی تھی۔ میں نے ان نظروں اور بدکار ہاتھوں سے خود کو کس طرح بچایا یہ صرف میرا مالک ہی جانتا ہے۔ بطریق ڈیمونان مجھے یہاں لے تو آیا لیکن وہ خود بدنیت تھا۔ میں نے خود ڈیمونان کی ہوس سے بچانے کے لیے بوڑھے طبریق اعظم کے ساتھ منسلک کر لیا۔ بوڑھا بطریق اعظم میری عزت کو تو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔ لیکن اس کی خوشامد اور چاپلوسی کرکے میں نے اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ایک کمینہ فطرت شخص کے ساتھ ضائع کر دیا۔ آیا صوفیا ء میں ہر شخص میرے حسن کا شکاری تھا۔ میں نے آپ کی امانت کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ کیا۔ اس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ میں اسی عرصہ میں اللہ تعالیٰ سے صرف ایک ہی دعا کرتی رہی کہ وہ آپ کو مجھ سے ملا دے۔ آج اتنے طویل عرصے بعد میری یہ دعا قبول ہوگئی۔۔۔قاسم! اب آپ مجھے کبھی اکیلا نہ چھوڑئیے گا۔ میں آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔‘‘
مارسی کی دردناک کہانی میں کھو کر قاسم کو تو یہ بھول ہی گیا کہ وہ ایک مفرور قاتل ہے اور آیا صوفیاء میں شاگال جیسے دشمن کی ناک تلے بیٹھا ہے۔ اچانک قاسم کو بہت زیادہ وقت گزر جانے کا احساس ہوا اور وہ چونکا۔ اس نے ایک دم مارسی سے کہا۔
’’مارسی! اب ہم مل چکے ہیں۔ کبھی جدا نہ ہونے کے لیے مل چکے ہیں۔ ہم بتہ باتیں کریں گے۔ اس عرصہ میں ہم پر کیا بیتی سب باتیں کریں گے۔ لیکن اس وقت تم چلو۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے اور ہم دشمن کے گھر میں موجود ہیں۔ میں داروغہ شاہی کو قتل کرکے فرار ہواہوں۔ پورے شہر میں میری تلاش ہو رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم رات کی تاریکی میں یہاں سے نکل جائیں۔ ہم یہاں سے سیدھے ’’ادرنہ‘‘ جائیں گے۔ سلطانی لشکر قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے روانہ ہو چکا ہے۔ سلطانی لشکر ہمیں راستے میں ملے گا۔ ہمارے لئے یہاں سے فی الفور نکلنا ضروری ہے۔‘‘
اب مارسی پوری طرح سنبھل چکی تھی۔ اس کے دل کی بھڑاس آنسوؤں کے ساتھ نکل گئی تھی۔ مارسی نے حالات کی نزادکت کو بھانپ لیا۔ وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ مارسی نے اپنے کمرے سے کوئی چیز نہ اٹھائی۔ صرف قرآن حکیم کا وہ نسخہ اپنے ساتھ لیا جسے گزشتہ سات سالوں سے وہ اپنے پاس چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ رہبانیت کی زندگی میں مارسی نے سب سے بڑا فائدہ یہی اٹھایا تھا کہ اس نے قآن حکیم کو ازبر کر لیا تھا۔ اب اس عظیم کتاب کا ایک ایک لفظ اس کے ذہن میں محفوظ تھا۔ بالافاظ دیر اب وہ قاریہ تھی۔ نکلنے سے پہلے مارسی نے قاسم سے پوچھا۔
’’قاسم! ہمیں کس طرف سے نکلنا ہے؟ سیدھے راستے سے باہر جانا تو ہمارے لئے ممکن نہیں۔ ہم عقبی سیڑھوں سے اتر کر پائیں باغ کے راستے سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اس راستے سے فرار ہونے کے لیے ہمیں ’’آیا صوفیاء‘‘ کا عقبی دروازہ کھلوانا ہوگا یا پھر دیوار عبور کرنی ہوگی۔ لیکن دیوار بہت بلند ہے۔‘‘
قاسم نے مارسی کی بات کو غور سے سنا۔ وہ خود بھی عقبی راستے سے جانا چاہتا تھا۔۔۔آیا تو وہ سیدھے راستے سے تھا۔ لیکن وہ جس وقت آیا صوفیاء میں داخل ہوا تھا اس وقت چرچ کے دروازے کھلے تھے۔ قاسم نے رات کے پہلے پہر تک آیا صوفیاء کے اندر چھپ کر وقت گزارا تھا لیکن اب تو سچ مچ اسے عقبی راستے کی ضرورت تھی۔
قاسم اور مارسی اپنے چہروں کو چھپائے راہداری میں آگئے۔ وہ انتہائی دبے قدموں چل رہے تھے۔قاسم کو ہر قدم پر شاگال کے ساتھ ٹکرانے کا خطرہ تھا۔ یہ آیا صوفیاء کی عمارت تھی۔ عیسائیوں کا مذہبی مرکز۔یہاں قدم قدم پر قاسم کے لئے موت منہ کھولے کھڑی تھی۔ اور اب تو مارسی کے لئے بھی واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ کیونکہ وہ ایک مسلمان جاسوس کے ساتھ فرار ہو رہی تھی۔ وہ دونون پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے عقبی سیڑھیوں تک پہنچ آئے۔ قاسم ہر زینے پر یوں اختیار کے ساتھ قدم رکھ رہا تھا جیسے بے احتیاطی ہوئی تو سانپ ڈس لے گا۔ اب قاسم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے لی تھی اور اس کے اعصاب بری طرح تنے ہوئے تھے۔ وہ کامیابی کے ساتھ سیڑھیاں اتر کر پائیں باغ میں آگئے۔ یہ آیا صوفیاء کے پہلو میں کئی سو گز لمبا چوڑا ایک بڑا پائیں باغ تھا۔ زمین پر سبز گھاس کا فرش تھا اور گھنے درخت قطاروں کی صورت میں لگے ہوئے تھے۔ درختوں کے بیچوں بیچ ایک راستہ عقبی دیوار کی طرف چلا گیا تھا۔ قاسم اور مارسی اسی راستے پر چلنے لگے۔ دونوں طرف گھنے سایہ دار درخت رات کی تاریکی میں ابوالہول کے مجسمے لگ رہے تھے۔ قاسم اور مارسی تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے گھنے درختوں کے نیچے آگئے۔ لیکن پھر قاسم کو ایک دم رک جانا پڑا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )