پاکستان سیاحت کو اہمیت کیوں نہیں دیتا؟
میں نے حکومت کی بجائے پاکستان سے سوال کیا ہے پاکستان سے مراد حکمران ہیں جو سیاحت کو اہمیت نہیں دیتے حالانکہ پاکستان تو سیاحت کے لیے بہترین ملک ہے اسلام آباد میں داخل ہوتے ہیں تو سامنے خوبصورت پہاڑ دل موہ لیتے ہیں، اسلام آباد سے شمال کی طرف چلتے جائیں تو مری سے پہلے بل کھاتی سڑک اور آگے سے تازہ ہوا آپ کا استقبال کرتی ہے، ملکہ کوہسار میک اپ کے بغیر سادگی میں اس طرح ایستادہ ہے کہ دیکھنے والے کے قدم رک جاتے ہیں سردیوں میں ملکہ سفید چادر اوڑھے کس قدر خوبصورت لگتی ہے اور گرمی کے دوران گرمی سے ستائے لوگوں کو اپنی آغوش میں لے کر ٹھنڈا کر دیتی ہے اگر بندہ مری سے آگے مظفرآباد کی طرف رخ کرتا ہے تو بہتے دریا کے کنارے موڑ کاٹتے دلکش نظارے ہوتے ہیں آزاد کشمیر کا سارا علاقہ ہی سیاحت کی انڈسٹری ہے پونچھ میں تولی پیر، نانگا چوٹی، بنجوسہ، ارجہ،باغ، سدھنوتی اور راولاکوٹ میں سے کس کی خوبصورتی زیادہ ہے انسان فیصلہ نہیں کر پاتا ، باب کشمیر سے بھمبر داخل ہو کر تحصیل سماہنی کی طرف چلتے جائیں تو بنڈالہ، باغسر، وادی سماہنی سے ہوتے ہوئے پونا، پیرگلی پھر چڑھوئی کی طرف نکل جائیں یا میرپور سے ڈیم کو دیکھتے دریائے پونچھ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے کوٹلی، تتہ پانی سے ہوتے پونچھ میں داخل ہو جائیں،اسی طرح مظفرآباد سے براستہ نیلم تاؤ بٹ تک اور ٹنل کھل جانے کے بعد اسکردو تک جا سکتے ہیں ان راستوں میں جو خوبصورتی ہے وہ دنیا کے بہت کم ممالک میں ملتی ہے مظفرآباد سے براستہ بالاکوٹ ناران، گلگت، استور،بابو سر ٹاپ نانگا پربت کا نظارہ کریں، شاہراہ ریشم سے وادی ہنزہ، خنجراب نیشنل بینک کا اے ٹی ایم جو دنیا کا سب سے اونچا اے ٹی ایم ہے اس سے آگے چین ہے سوات موٹر وے سے ہوتے ہوئے چکدرہ سے بائیں سوات کی طرف چلے جائیں یا مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہو کر دیر سے آگے چترال کی طرف منہ کریں تو کوہ ہندوکش کے سلسلوں کی فلک بوش چوٹیوں کو دیکھ کر انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے دریائے سندھ میں داخل ہونے والے دریائے کابل اور دریائے چترال کی روانی اور کانوں میں رس گھولتی موسیقی مسرور کرتی ہے ٹیکسلا ہو یا ہڑپہ یا سندھ کی صدیوں پرانی تاریخ کا اعزاز بھی پیارے پاکستان کے پاس ہے پنجاب کے لہلہاتے سرسبز کھیت، باغ اور کھیوڑہ کی نمک کی کان دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں سرائیکی صحرا اور میٹھی زبان، بلوچستان کے پھلوں کا اور بلوچ تہذیب کا اپنا الگ ہی مزہ ہے تو پھر ہم پاکستان کو کیسے دوش دے سکتے ہیں ایسے خوبصورت، تاریخ اور وسائل سے مالا مال ملک میں اگر سیاح نہیں آتے تو یہ حکمرانوں کی ناکامی، نالائقی یا بدنیتی کہی جائے گی لیکن اس خاکسار نے پاکستان کو اس لیے مخاطب کیا ہے کہ حکمران تو نالائق یا بے ذوق تھے ہی مگر عوام نے بھی کبھی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کوئی اجتماعی کوشش کی ہے نہ کبھی وہ ماحول پیدا کیا جس میں غیر ملکی دوست خوشی خوشی آئیں، ہمارا معاشرہ دنیا میں خود اچھوت بنا ہوا ہے ہم اپنے اعمال پر غور نہیں کرتے اور دوسری ساری دنیا کے دودھ میں ہمیں مکھیاں نظر آتی ہیں ان سطور کے لکھتے ہوئے خبر ملی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک 30 رکنی اتھارٹی قائم کی ہے جو سیاحت کو فروغ دے گی اس اتھارٹی میں ن لیگ کے وزراء اور کچھ بیوروکریٹس ہیں جو کہ سب روایتی لوگ ہیں جن کا مجھے اندازہ ہے کہ وہ سیاحت سے زیادہ اس چیز پر نظر رکھیں گے کہ اس کام سے ہم کیا فائدہ اٹھائیں، سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کی سرکاری اتھارٹیوں کی نہیں بلکہ ان دماغوں کی ضرورت ہے جن میں سیاحت کے جراثیم ہوتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ سیاحت کو فروغ کیسے دیا جا سکتا ہے اگر وفاق کو نہیں کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ہی یہ احساس ہو گیا ہے تو انہیں چاہیے کہ اپنے تارکین وطن سے ایسے چند لوگوں کی خدمات حاصل کریں جنہوں نے خود کم از کم پچاس ممالک کی سیر کی ہو اور وہ اپنی ذات سے بالاتر پاکستان میں سیاحت کو بڑھانے کے خواہش مند ہوں اور سیاحت کو بڑھانے کے بنیادی اصولوں کو جانتے ہوں وہ لوگ ایک سیاحتی فرم بنا کر پاکستان کے سیاحتی علاقوں کی تشہیر کریں، سیاحتی علاقوں میں دوستانہ ماحول اور سو فیصد تحفظ کا بندوبست کریں اور حکومت سیاحتی علاقوں سے مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرے ذرا دنیا پر غور کریں اور اعدادوشمار دیکھیں کہ دنیا کے کتنے ممالک سیاحت سے کتنا زرمبادلہ کما رہے ہیں جبکہ پاکستان اس سرمائے سے کیوں مرحوم ہے۔؟