ملکی مفاد
چند دن سے ہما را ملکی مفاد ہمیں ایک بار پھر چکر پہ چکر دے رہا،ایک جگہ ٹھہرتا ہی نہیں ہمیشہ کی طرح کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر،ہما ری طرح اور حکومت وقت کے ساتھ ساتھ ساری اپوزیشن بھی اسے ڈھونڈ رہی ہے کہ یہ کدھر چھپ گیا ہے مگر یہ ہے کہیں اور چھپا بیٹھا ہے، خیر چھپ جائے حکومت اسے ضرور تلاش کر لے گی۔ دیکھو ناں سارا پاکستان پریشان ہے کہ یہ ملکی مفاد آج کل عوام کے مسائل سے بالکل لاپرواہ کیوں ہو گیا ہے، اسے عوامی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں، غربت، مہنگائی،بے روزگاری اور لاقانونیت کی صورتحال سے سے بے پرواہ ہو چکا ہے اور صرف ایوان اقتدار کی راہداریوں میں ا چھل کود کرتا نظر آتا ہے ا ورنئی ترامیم کے انتظار میں مگن ہے۔ہم ذاتی طور پر اس ملک کی حالت کا ذمہ دار نہ تو کسی سیاسی پارٹی کو سمجھتے ہیں نہ اس کے کسی معزز لیڈر کونہ کسی اتحاد کو اور نہ ہی طاقتور ترین حلقوں کو اس پیارے ملک کو ”یہاں“ تک لانے اور پہنچانے میں سارا قصور اس ملکی مفاد کا ہے جو قابو میں نہیں آرہا،اس ملکی مفاد کو سب پتہ ہے کہ آج کل یہ مفاد کسی پارٹی میں ہے۔یہ کبھی پیپلز پارٹی میں ہو تا ہے تو کبھی مسلم لیگ میں چند سال پہلے یہ پی ٹی آئی میں چلا گیا تھا۔مسلم لیگ ق میں بھی کچھ عرصہ رہا اور کچھ دیر تو مسلم لیگ ضیا میں بھی انجوائے کرتا رہا،کچھ عرصہ تو یہ ظالم ایم کیو ایم میں بھی کھیلتا رہا،حکومت جب بھی نئی بنتی ہے تویہ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام میں لازمی ہوتا ہے۔کبھی کبھی تو یہ جمہو ری اتحاد میں بھی بغلیں بجاتا رہا اور ایک موقع پر تو میثاق جمہوریت میں بھی جا گھسا اور پھر ان کو بھی چکر دے کر اسٹیبلیشمنٹ میں چھپ گیا۔ یہ ملکی مفاد کبھی سیاسی پارٹیوں میں آتا جاتا رہا اور کبھی کبھی مارشل لاء میں چلا جاتا ہے اور ایک بار تو یہ، وہا ں دس بارہ سال آرام کرتا رہا۔ہم نے اس لئے بھی اپنے جاہل عوام کو سمجھانا چھوڑ دیا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سیاسی جماعتوں اور ان کے خاندانی وراثت کے حقداروں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور سارا الزام ان عظیم ہستیوں کو دیتے ہیں جو ملکی مفاد میں اقتدار میں ہوں تو سارا ملک دندناتے پھرتے ہیں اور اگر اقتدار سے علیحدہ جائیں یا کر دیئے جائیں تو فوراً ملکی مفاد کی خاطر بیمار ہو جاتے ہیں اور ملکی مفاد کی خاطر ان کے ڈاکٹر بھی انہیں بیرون ملک علاج کا مشورہ دیتے ہیں اور یہ فوراً ملک کے مفاد کی خاطر بیماری کی حالت میں باہر چلے جاتے ہیں اور تب تک واپس نہیں آتے جب تک ملکی مفاد ان کے ساتھ واپس نہیں آ جاتا۔اب بولو قصور کس کا ہوا،ملکی مفاد کا جو ایک جگہ ”ٹکتا“نہیں،ہمارے ہر شعبہ زندگی کا بڑا اور طاقتور ترین انسان چاہے کسی بھی ادارے،حکومتی یا معاشی نظام سے ہو ہروقت ملکی مفاد کا خیال رکھتا ہے اور اس پر نظر بھی اور ملکی مفاد جہاں بھی چھپ جائے یہ تلاش کر لیتا ہے۔دیکھو نا اب یہ بھی تو زیادتی ہے کہ یہ ملکی مفاد صبح عدالت کے اندر ہوتا ہے،عدالتی کارروائی کے فوراً بعد عدالت کے باہر لان میں،شام کو پارلیمنٹ میں اور رات کو تمام ٹی وی چینلز میں اونچی آواز اور اینکروں کی زبان اور جیب میں ہو تا ہے۔
اب اس غریب اور جاہل عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قصور اپنے معززین اور سیاسی لیڈروں کا نہ سمجھیں بلکہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں،ہر روز مہنگائی بجلی پانی صحت اور روزگار سے ہٹ کر ملکی مفاد کا سوچا کریں، تاجروں کو چاہیے کہ وہ ٹیکس چوری کرنا چھوڑ دیں،ان عوام کی خاطر ”دن رات“ کام کرنے والوں کا احترام کریں قانون میں جن ”ضروری ترامیم“ کی اشد ضرورت ہے اس پر توجہ دیں اور خدا سے دعا کریں بلکہ کرتے رہا کریں کیونکہ اب خدا ہی ہمارا حامی و ناصر ہے،جس دن یہ ملکی مفاد ہما رے بڑوں کے قابو آگیا ہم دنیا میں سر اٹھا کر اور ترقی اور خوشحالی کا جھنڈا ااٹھا کر ساری دنیا میں مسال بنیں گے اور دنیا ہم سے ترقی کا راز پوچھے گی اورہم تیز رفتار ایکسپریس ٹرین کی طرح کچھ بتائے بغیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو جائیں گے، امریکی اور آئی ایم ایف کی امداد اور قرض کے بوجھ کو گلے سے اتار پھینکیں گے بلکہ وہ ہم سے قرض مانگیں گے جیسا ہماری پچھلی وزیر خارجہ نے بتایا تھا۔