سب بند گلی میں ہیں،عمران خان نے ناکامیوں کا ریکارڈ بنا رکھا ہے ، کیسے مان لوں احتجاج کامیاب ہوگا ؟حفیظ اللہ نیازی کھل کر بول پڑے
لاہور ( خصوصی رپورٹ)سب بند گلی میں ہیں،عمران خان ہوش و حواس سے دور، جھوٹ کو سچ پر ترجیح اپنےلیےمنتخب فرمائی۔جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی تو اپنی نیت کی بھینٹ چڑھ گئی۔عمران خان نے ناکامیوں کا ریکارڈ بنا رکھا ہے ‘‘، کیسے مان لوں کہ احتجاج کامیاب ہوگا ؟سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی کھل کر بول پڑے۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان ’’درد کچھ اور ہی بڑھ گیا‘‘ میں حفیظ اللہ نیازی نےلکھا کہ’’میں نے جو کی دوائے دل‘‘ ، یہی کچھ کہانی ہے مقبول سیاسی رہنما کی ۔ وطن عزیز آج جس سیاسی دلدل میں ہے ، کلیجہ منہ کو آتا ہے ، دل دَہل جاتا ہے۔ دعویٰ ہے کہ آجکا سیاسی بحران کئی مدوں میں 1971 ء کے بحران سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے ۔ لاینحل سیاسی عدم استحکام سے دوچار ،’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘۔ لرزہ براندام ہوں کہ حکومت ، ادارے ، سیاسی جماعتیں بشمول مقبول قومی رہنما ، 25 کروڑ لوگ ، سب بند گلی میں ہیں ۔ حیف ! جن کو سنگینی کا ادراک اُنکی خوش فہمی و خوش گمانی ساتویں آسمان پر ،دوسری طرف جم غفیر بیگانگی ، لاتعلقی سے مزین ،ایسی بے نوری اور ابتلاء میں دیدہ ور چاہیے تھا ، تاحد ِنگاہ موجود نہیں ہے ۔
اقتدار سے محرومی پر عمران خان ہوش و حواس سے دور ، اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا ، جھوٹ کو سچ پر ترجیح اپنےلیےمنتخب فرمائی ۔ 28سالہ سیاسی عمر میں پہلی دفعہ 2022 میں سیاسی مقبولیت سے متعارف ہوا تو آپے سے باہر ہونا بنتا تھا ۔ عسکری قیادت کو للکارا ، عمران خان کا یہ رول بمطابق جنر ل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کا تیار کردہ سکرپٹ ہی تو تھا ۔عمران خان کی بدقسمتی ، ساری سیاسی زندگی کے سارے احتجاج، پروگرام دانستہ یا نادانستہ اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر رہے۔اگرچہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی تو اپنی نیت کی بھینٹ چڑھ گئی ، البتہ عمران خان کا داؤ لگ گیا ۔
کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ اقتدار سے علیٰحدہ ہوتے ہی عمران خان نے بزور بازو شہباز حکومت ختم کرنے کی ٹھانی تو شہ دینے والا جنرل فیض موجود تھا ۔ اگر فیض سے فیضیابی کا سلسلہ جاری نہ رہتا تو 26 مئی کی تضحیک آمیز پسپائی کے بعد سیاست دم توڑ چکی تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل مدد اور مقبول قومی رہنما کی بقلم خود ولولہ انگیز قیادت ، سوشل میڈیا پیالی کا سونامی ، کیا سبق اَزبر کروایا گیا کہ ایسا ہر خانہ ناکامی و نامرادی سے بھرا پڑا ہے ۔ 2014 تا 2022مظاہروں کی ناکامیوں کا ہزیمت آمیز سفر ، کاش فیصلہ سازی کو بہتر کرلیتے۔فاسٹ فارورڈ ، 8 فروری الیکشن کے بعد درجنوں ہڑتالوں ، احتجاجوں اور پاورشوز کی صدائیں دیں ، صدبہ صحرا رہیں ۔ہر ناکامی سبق آموز ، سبق نہیں سیکھا۔
کالم کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ حال ہی میں 24نومبر ( 2 دن بعد ) احتجاج کی کال بعنوان’’ مارو یا مر جاؤ‘‘ ، الٹی گنتی شروع ہے ۔ اپنی کہی بات کو دہراتا ہوں ،’’عمران خان نے ناکامیوں کا ریکارڈ بنا رکھا ہے ‘‘، کیسے مان لوں کہ احتجاج کامیاب ہوگا ؟ ایسے وقت جب ولولہ انگیز قیادت بنفس نفیس موجود تھی تو تب بھی احتجاج ، ریلیاں ، دھرنے سو فیصد ناکام رہے۔ کسی ذی شعور سے مجھے رہنمائی چاہیے کہ 24 نومبر کا احتجاج کیونکر کامیاب ہوگا؟ میری ذاتی اطلاعات کیےمطابق علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر خان نے عمران خان کو 2 ملاقاتوں میں زمینی حقائق سے کماحقہ آگاہ کر دیا ہے کہ بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ناکامی ثبت رہے گی۔ عمران خان کے تینوں مطالبات کو منہ کی کھانی ہے۔ عمران خان کے سیاسی سفر کا خلاصہ ،’’دو آرزو میں کٹ گئے ، دو انتظار میں‘‘۔ چند ماہ پہلے تک ادارے کے اندر سے مدد کا انتظار پچھلے چند ماہ سے سپریم کورٹ کے انقلابی فیصلوں سے 70نشستیں مع دوبارہ وزیراعظم بننا تھا اور آج کل صدر ٹرمپ’’ اَپی‘‘ ہے ۔’’ نااُمیدی اسکی دیکھا چاہیے‘‘ ۔ عمران خان کی ساری تدبیریں سارے منصوبے ، ساری تڑیاں آج تک الٹی پڑ چکی ہیں ۔ جن ساتھیوں پر تکیہ تھا ، ان سے اعتماد اٹھ چکا ہے بلکہ وہ اپنے لیڈر کو جیل میں رکھنے کیلئے ہنر آزما رہے ہیں ۔ 24 نومبر کی کال عمران خان کی فرسٹریشن اور PTI قیادت پر عدم اعتماد کا شاخسانہ ہے۔ 24 نومبر کا احتجاج ملتوی نہ ہوا تو ناکامی ثبت ہے ۔