لائن آف کنٹرول توڑنے کا اعلان۔۔۔

لائن آف کنٹرول توڑنے کا اعلان۔۔۔
لائن آف کنٹرول توڑنے کا اعلان۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا میں اگر ظلم ،زیادتی،حیوانیت اور بربریت کی بات ہو تو سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے دل و دماغ میں کشمیر کا نام آتا ہے۔ کشمیر دنیا کا وہ حسین مگر بدقسمت خطہ ہے جسے تحتِ سلمانی اورجنتِ نظیر کا نام دیا گیا۔ حسن پسندوں کا ماننا ہے کہ کشمیر جنت کی طرح خوبصورت ہے جس کے پہاڑ،جھیلیں ،آبشاریں ،دریاجنت کا منظر پیش کرتی ہیں ۔موجودہ کشمیر دو حصوں میں بٹ چکا ہے ۔ایک پر بھارت زبردستی قابض ہے جبکہ دوسرا پاکستان کے زیرانتظام ہے۔1948کی پاک بھارت جنگ اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے جنوری 1949میں ختم ہوئی اور دونوں ملکوں کی افواج کو وہیں پر پیش قدمی روکنے کا حکم ہوااور اس لائین کو جنگ بندی لائن قرار دیا گیا جو 1972 میں شملہ معاہدہ کے ذریعے ’’لائن آف کنٹرول ‘‘میں تبدیل کر دی گی۔دراصل لائن آف کنٹرول دونوں ملکوں کی افواج کیلئے بنائی گی ہے جس کی پابندی ہردو طرف کے کشمیری عوام پر ہرگز نہیں مگر دونوں طرف کے کشمیریوں کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی اجازت نہیں ۔جنگ بندی لائن کو توڑنے کی کشمیر ی متعدد بار کوشش کرچکے مگر تاحال بے پناہ قربانیوں کے باوجود کامیابی نصیب نہیں ہو ئی ۔سب سے پہلے یہ کوشش 1958میں کشمیر لبریشن موومنٹ تنظیم کے سربراہ چودھری غلام عباس نے کی جس کی حمایت آزادکشمیر کے دو سرکردہ راہنماؤں سردارعبدالقیوم خان اور کے ایچ خورشید نے کی ۔چودھری غلام عباس کی کال پر آزاد کشمیر کے عوام لبیک کہتے ہوئے بڑی تعداد میں چکوٹھی پہنچے تو ان پر فائرنگ کردی گئی اورسیاسی رہنماوں کو گرفتار کر لیا گیا اوریوں جنگ بندی لائن عبور کرنے کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔
1990کی دہائی میں گلنواز بٹ کی قیادت میں طلباء تنظیمNSF نے بھی لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھربے رحم گولیوں نے ان کا راستہ روک لیاجس کے نتیجہ میں تین نوجوان وطن کی آزادی کا خواب آنکھوں میں سجھائے شہید ہو گئے اور قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔1991میں چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ امان اللہ خان نے سیزفائر لائن توڑنے کی منصوبہ بندی بنائی تاہم شیخ رشید کے ذریعے پاکستانی حکومت سے مذاکرات کے بعد یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی ۔1992میں امان اللہ خان نے دوبارہ کوشش کی جس پر آزادی پسند ہزاروں کی تعداد میں امان اللہ کی حمایت کا عملاً اظہارکرتے ہوئے بغیر کسی ڈر و خوف کے چکوٹھی قافلہ میں شامل ہوتے گئے مگر انسانی جانوں کی قربانیوں کے ساتھ ہی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔
سابقہ ناکامیوں کے باوجود اکتوبر 1992میں ’’ضربِ حیدر‘‘ کے نام سے ایک تحریک کاآغاز ہوا،اس بار جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے سربراہ سردار ابراہیم خان کی قیادت میں کشمیری عوام نے بڑی تعداد میں جنگ بندی لائن کا رخ کیا ۔ جموں کشمیرپیپلز پارٹی کے صدر سردار ابراہیم خان کے ساتھ لبریشن لیگ کے صدربیرسٹر سلطان محمود چودھری اور خواجہ فاروق نے بھی شرکت کی ۔ریلی کو عالمی سطح پر کا فی پذیرائی ملی اور ریلی نے تین جگہوں سے لائن آف کنٹرول کو توڑ دیامگر گولیاں چلاکر چھ نہتے لوگوں کو شہید کر دیا گیااور سربراہوں کو گرفتار کر لیا گیا بالآخریہ تحریک بھی ناکام ہو گئی۔1993میں ممتازاحمد راٹھور نے بھی ایک کوشش کی مگران کی کوشش چناری کے مقام پر ہی دم توڑ گئی ۔1999میں امان للہ خان نے ایک مرتبہ پھر کوشش کی مگر ہجیرہ سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔مذکورہ کوششوں کے بعد تادم تحریر کوئی عملی کوشش نہیں ہوئی البتہ گزشتہ برس جنرل الیکشن میں مسلم کانفرنس کی ناکامی کے بعد سردار عتیق احمد خان نے بھی لائن آف کنٹرول کو توڑنے کا اعلان کیا، عوام نے ایک بار پھر ریاست جموں کشمیر کو منقسم کرنے والی خونی لکیر کو توڑنے ایسی کاز کے لیے ساتھ دینے کا اعلان کر دیا مگر جلد ہی سردار عتیق نے بھارتی فوج کی جانب سے نہ تھمنے والی گولہ بھاری سے خائف ہوکر پہلے تاریخ میں توسیع کی جبکہ بعدازا منظرعام سے ہی غائب ہو گئے اور اب گزشتہ کچھ دنوں سے دوبارہ موصوف لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کیلئے تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ عوام کا جواب اس دفعہ بھی کافی حد تک مثبت ہے ۔اگر سردار عتیق اپنے فیصلے پر قائم رہے تو دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا حسب سابق صرف عوام پر گولیاں چلیں گی یا تحریک کامیاب ہو جائے گی۔ سردارعتیق احمد خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ موصوف مسلم کانفرنس کے مردہ گھوڑے کو زندہ کرنے کے لیے تحریک آزادی کشمیر کے ہیرو بننے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ موصوف ایک عرصہ سے ملٹری ڈیموکریسی کی اسطلاح پیش کر کے مظفرآباد کے اقتدار کی راہ دیکھ رہے ہیں، اس کے باوجود سردار عتیق کی سنجیدہ عملی کوشش آزاد کشمیر کے عوام اور مختلف جماعتوں کو اپنی حمایت پر آمادہ کرسکتی ہے بہرحال اس کا فیصلہ سردار عتیق احمد خان کی نئی حکمت عملی پر عیاں ہوجائے گا۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -