سیاسی کشیدگی اور ملکی مفاد، غیر جمہوری عناصر مداخلت نہ کریں
پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی محاذ آرائی کا تسلسل جاری ہے۔ اپوزیشن 25 جولائی 2018ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے،روزِ اول یعنی ان نتائج کے اعلانات کو، متعلقہ حقائق کی کھلی خلاف ورزی کی بنا پر آج واضح لب و لہجے سے انکار کر رہی ہے۔ ملکی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے اکثر قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ مذکورہ بالا انتخابات کے نتائج کے وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کا عوام کو جلد انتخابی نتائج سے آگاہ کرنے والا) (RTS (Result Transmission system) سسٹم خراب یا بند ہو گیا تھا جو تقریباً تین روز تک اس وقت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق درست نہ کیا جا سکا،یوں کئی انتخابی نتائج کا اعلان، اسی صورتِ حال میں کیا گیا۔ ایسی خبروں کو سن کر بیشتر امیدواروں کو ان نتائج کی درستگی پر آج تک یقین نہیں آیا۔ اسی طرح ہارنے والے متعدد امیدواروں کے حامی کارکنوں کو بھی ان نتائج کی تیاری، بیلٹ باکسز میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد اور گنتی کے مطابق صحیح ماننے میں خاصی رکاوٹ رہی ہے۔ گنتی سے قبل کئی پولنگ ایجنٹس کو بھی بیلٹ باکسز والے کمروں سے باہر نکالنے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں دیکھنے اور پڑھنے میں آئیں۔ ان دنوں کئی پولنگ ایجنٹس کو انتخابی نتائج کے تحریر شدہ قانونی کاغذات بھی فراہم کرنے سے گریز کرنے کی اطلاعات کئی روز تک قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر بار بار دہرائی گئیں۔
انتخابات میں حصہ لینے والے بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار اور کارکن چونکہ مذکورہ بالا متعلقہ کارروائیوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں،اس لئے ان کی بیشتر معلومات حقائق کے مطابق یا بہت قریب ہوتی ہیں۔انہیں مخالف امیدواروں کی کارکردگی اور انتخابی مہم کے دوران منعقد کئے گئے جلسوں اور جلوسوں میں لوگوں کی شرکت و پسندیدگی اور جوش و خروش کے اظہار، خاموشی یا ناراضگی کے حالات و تاثرات کا بھی کافی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے۔
اگر چہ انتخابی نتائج کا اعلان تو باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن اپنی مرضی یا مقررہ اوقات پر کرتا ہے، جبکہ ٹی وی چینلوں پر روزانہ ٹاک شوز میں آج تک انتخابی نتائج کا درست اعلان نہ ہونے پر کئی تجزیہ کار، امیدوار اور ان کے حامی اس معاملے پر RTS کی دانستہ غفلت، لاپرواہی یا اپنی پسند کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کی سوچی سمجھی سازش یا پالیسی ٹھہرا تے ہیں۔ بعض مقدمات میں کورٹ کی سماعت میں، فارم 14 اور 45 کے صحیح استعمال نہ کرنے پر بھی کافی بحث و تمحیص پڑھنے اور سننے میں آئی۔ چند ہفتے قبل رات 8 سے 9 بجے کے درمیان چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے یہ اعلان ایک ٹی وی چینل پر دیکھنے میں آیا کہ RTS بند کیوں ہوا تھا،اس بارے میں انکوائری کرائی جائے گی، لیکن یہ خبر جلد وہاں چلنا بند ہو گئی اور پھر اس کا ذکر وہاں یا کسی اور ٹی وی چینل پر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی خبر یا اطلاع کسی قومی روزنامے میں اگلے چند روز میں، بلکہ آج تک دیکھنے میں آئی۔ پارلیمینٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے وقت اپوزیشن اپنی دس ووٹوں سے شکست کو دانستہ غلط گنتی کا سوچا سمجھا جھانسہ قرار دے رہی ہے۔ کیا یہ بیان بھی حقائق کے منافی ہے۔اپوزیشن انتخابی نتائج کے بعد جہانگیر ترین کے حوالے سے کئی منتخب نمائندوں کو اسلام آباد اور لاہور لانے کے بعد حکومتی نمائندوں کی تعداد پوری کرنے یا بڑھانے کا تذکرہ آئے روز اپنے بیانات میں کرتی رہتی ہے۔ اپوزیشن حکومت کے اس اقدام کو بھی جمہوری اصولوں کی واضح خلاف ورزی اور غیر جمہوری عناصرکی غیر آئینی کارکردگی سے تعبیر کرتی ہے، کیونکہ وہ آزاد اراکین اسمبلیوں میں اپنی مرضی اور خواہش سے، اپوزیشن میں بھی شامل ہو سکتے تھے، لیکن غیر قانونی دباؤ کے باعث ان کی خاصی قابل ذکر تعداد جہانگیر ترین کے ساتھ جانے پر بظاہر مجبور کر دی گئی، لیکن جمہوری نظام میں ایسی آمرانہ کارروائی رونما نہیں کی جا سکتی۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین یہ اختلاف بدقسمتی سے گزشتہ عرصہ 62 سال سے چل رہا ہے، جب جنرل ایوب خان برسر اقتدار آئے تھے۔ ان کے بعد بھی جمہوری حکومتوں کی بار بار بساط لپیٹی گئی،یوں اپوزیشن اس آمرانہ اور غیر جمہوری کارروائی پر اپنی ناراضی اور مخالفت کا کسی نہ کسی انداز سے ہر ایسے دور سے قبل اور اس کے دوران کھلے عام اظہار کر کے آمر طبع لوگوں اور ان کے حامی افراد کو قائل و مائل کرنے کی کوششیں کرتی رہی کہ کسی ملک کی تعمیر و ترقی ور خوشحالی جمہوری حکومتوں کے ادوار میں ہی صحیح طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ غیر جمہوری عناصر قانون اور آئین کو پس پشت ڈال کر خود یا اپنے حواری افراد کو اقتدار میں لانے اور بٹھانے کے کسی طور مجاز نہیں ہیں۔ ہمارا قریبی ملک بھارت ایک ایسی ہی واضح مثال ہے، وہاں جمہوری نظام کا تسلسل چلنے سے ملک کی اقتصادی حالت خراب یا تباہ ہونے سے اکثر اوقات محفوظ رہتی ہے۔ہمارے ملک میں کرپشن میں ملوث افراد کا آئین، قانون اور انصاف کے مسلمہ اصولوں کے مطابق احتساب ہر دور حکومت میں غیر جانبداری، دیانتداری اور خلوص نیت سے متعلقہ اداروں کے ذریعے کیا جانا چاہئے۔ اس بارے میں کسی مخصوص خاندان، صوبے اور سیاسی جماعت یا اتحاد سے وابستگی یا مخالفت کی ترجیح یا تفریق ہرگز نہ کی جائے۔ مثلاً کوئی شخص لاہور، کراچی، لاڑکانہ، پشار، صوابی، ملتان، رحیم یار خاں یا ڈیرہ غازی خاں وغیرہ سے تعلق ر کھتا ہے اور وہ وطن عزیز کے کسی شعبے میں قومی خزانہ یا وسائل کی لوٹ مار اور خورد برد کا ذمہ دار ہے تو اس کے خلاف متعلقہ عدالتوں میں قانونی کارروائی کی جائے اور ان افراد سے ملکی دولت اور خورد برد کے مالی و مادی وسائل جلد واپس لئے جائیں۔