افغانستان کا مستقبل

افغانستان کا مستقبل
افغانستان کا مستقبل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکہ افغانستان سے چلا گیا ہے مگر افغانستان امریکی سیاست اور نفسیات سے شاید کبھی نہ نکل سکے۔ 22 ری پبلکن امریکی سینیٹرز نے افغانستان کے متعلق ایک بل پیش کیا ہے جس میں طالبان کو آنکھیں دکھائی گئی ہیں اور اس کے ساتھ اسلام آباد کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ امریکہ اس وعدے کے ساتھ نکلا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا اوربظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ امریکہ افغانستان کے معاملات سے اسی طرح لاتعلق ہو جائے گا جیسے وہ سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد 1990ء کے عشرے میں ہوا تھا اور یہ باور کیا جا رہا تھا کہ اگر 11ستمبر جیسا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا تو امریکہ میں افغانستان کے متعلق ایک لاتعلقی سی نظر آئے گی۔


مگر گزشتہ کچھ دنوں سے امریکہ میں افغانستان کا موضوع خاصا گرم ہے۔ بل پیش کرنے والے سینیٹر جم رِش کا کہنا ہے کہ طالبان کے طاقت میں آنے سے القاعدہ اور داعش افغانستان میں مضبوط ہو سکتی ہے۔ سینٹ میں پیش کیا جانے والا بل افغانستان سے بھی زیادہ پاکستان کے خلاف نظر آتا ہے۔ امریکہ پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ روز افغان انخلا پر امریکی وزیردفاع اور آرمی چیف کو بھی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی فوج کے جائنٹ چیف آف سٹاف نے افغان انخلاء کو امریکی ساکھ کے لئے بڑا نقصان اور اسے سٹریٹجک ناکامی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان میں ریاست تو بنا لی مگر قوم نہیں بنا سکے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور آہستہ آہستہ طالبان کی گرفت معاملات پر مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ دورحکومت میں طالبان پنج شیر وادی پر قبضہ نہیں کر سکے تھے۔ اب یہ وادی ان کے کنٹرول میں ہے۔علامہ اقبالؒ نے 1921ء میں کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کے امن کا انحصار کابل کے امن پر ہے۔ مگر اب جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ واشنگٹن اور ماسکو بھی کابل میں امن کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ کیونکہ اگر افغانستان میں امن نہیں ہوتا تو خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہاں سے دہشت گردی دنیا کے کسی خطے میں بھی جا سکتی ہے۔ 1990ء کے عشرے میں افغانستان سے امریکہ چلا گیا تھا کیونکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اسے یہاں کوئی مفاد نظر نہیں آ رہا تھا۔

امریکہ واپس آیا تو اس نے برملا یہ اعتراف کیا کہ اس کا یہاں سے جانا ایک بڑی غلطی تھی مگر اب وہ اس غلطی کو نہیں دہرائے گا۔ صدر بائیڈن نے چند ماہ قبل افعان فوج پر اپنے یقین کا اظہار کیا تھا مگر اس فوج نے جتنی تیزی کے ساتھ ہتھیار ڈالے اس کا کوئی امریکی انٹیلی جنس ادارہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔امریکہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ افغانستان میں ہر معاملہ طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس لئے وہ کسی نہ کسی انداز میں یہاں موجود رہے گا۔ کابل ایئرپورٹ پر داعش کے حملے کے بعد اس نے خود حملے کئے اور ایک تازہ بیان میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ افغانستان میں فضائی حملوں کے لئے طالبان کو بتانا ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فضائی حملوں کے لئے استعمال ہونے والی صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے۔ طالبان داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ اپنی کامیابیوں کی خبر بھی دے رہے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے چلا گیا ہے مگر یہاں کے معاملات پر کڑی نظر رکھنا اس کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو افغانستان سے امریکی انخلاء کو غلطی قرار دیتے ہیں۔ بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر لنڈیزلی گراہم نے کہا تھا کہ ہم اسی طرح افغانستان میں واپس جائیں گے جیسے عراق اور شام میں گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ افغانستان اسلام کے شدت پسندوں کا مرکز بن جائے گا اور امریکہ کو واپس جانا پڑے گا۔ سینیٹر گراہم کی بات کو بہت سے حلقے سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر امریکہ کو واپس جانا پڑا تو وہ کیسے جائے گا۔ اب انہیں افغانستان میں مداخلت فضائی اور ڈرون حملوں کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ 


طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکی میڈیا اور سیاستدانوں نے افغان فوج کی اہلیت پر سوال اٹھائے تھے۔ افغانستان کی کرپشن بھی میڈیا کے ایجنڈے کا حصہ رہی۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے کچھ طاقتور حلقے افغانستان اور پاکستان کو سزا دینے کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔طالبان کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے۔ گزشتہ افغان حکومت کا تقریباً 80 فیصد خرچ امریکی امداد سے پورا ہوتا تھا۔ اب نہ صرف وہ امداد بند ہو چکی ہے بلکہ امریکہ نے افغانستان کے اثاثے بھی منجمد کر دیئے ہیں اور اس پر مزید پابندیاں لگانے پر غوروخوض کیا جا رہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ طالبان بہت کم بجٹ کے ساتھ حکومت چلا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں گزشتہ افغان حکومت کی طرح  اسراف نظر نہیں آ رہا۔ طالبان سپاہی اب بھی گراؤنڈ میں سو جاتے ہیں اور روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود افغانستان کی حکومت کو بیرونی امداد کی ضرورت ہو گی۔ گزشتہ طالبان حکومت میں اقوام متحدہ افغانستان کو 20 ملین ڈالر کی گندم فراہم کرتا تھا۔

اب اگر امریکہ طالبان کے فنڈز منجمد کر دیتا ہے۔ بیرونی امداد کاحصول ناممکن بنا دیتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ افغانستان میں ایک بڑا بحران پیدا ہو گا۔ مہاجرین کا ایک سیلاب آ سکتا ہے جو پڑوسی ممالک میں مسائل پیدا کر سکتا ہے اور اس سے افراتفری کی ایک ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس میں متعدد خطرناک تنظیمیں دوسرے ممالک میں دہشت گردی کر کے عالمی امن کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اگر امریکہ افغانستان میں بحران پیدا کر کے ایسا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی نہیں بلکہ سب سے بڑی غلطی ہو گی۔ چین، روس، پاکستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران اور ترکمانستان کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ممالک کے اپنے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ امریکہ کو کسی خطرناک غلطی سے باز رکھنے کے لئے اقدامات کریں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ طالبان کو بھی باور کرائیں کہ اکیسویں صدی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر کے حکومت کرنا آسان نہیں ہے۔ افغانستان نے عالمی برادری میں رہنا ہے تو اسے عالمی تقاضوں کو بھی سمجھنا ہو گا۔ طالبان پر لازم ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل کے لئے ایسے فیصلے کرنے سے گریز نہ کریں جو حالات کا تقاضہ ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -