نجی سکولوں کی فیسیں اور یکساں نصابِ تعلیم

نجی سکولوں کی فیسیں اور یکساں نصابِ تعلیم
 نجی سکولوں کی فیسیں اور یکساں نصابِ تعلیم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سپریم کورٹ نے 5 ہزار سے زائد فیس لینے والے نجی سکولوں کو فیس میں 20 فیصد کمی کرنے اور 2 ماہ کی چھٹیوں کی فیس کا 50 فیصد والدین کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نجی سکولوں کی زائد فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت کی اس سلسلے میں نجی سکولوں کے وکیل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل اور چیئرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ہائی کورٹس کے فیصلوں کی پابند نہیں، آگاہ کیا جائے فیس میں خاطر خواہ کمی کیسے ہو گی؟ عدالت فیصلہ خود کرے گی کہ فیس میں مناسب کمی کتنی ہو گی۔

اس موقع پر بیکن ہاؤس کے وکیل نے کہا کہ ہر سکول کی فیس اور سالانہ اضافہ مختلف ہے پنجاب کے سابق وزیر تعلیم نے سالانہ 10 فیصد اضافے کا قانون بنانے کا کہا اور رانا مشہود اسمبلی سے صرف 8 فیصد کی منظوری لے سکے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے سابق وزیر تعلیم کا اپنا بھی کوئی سکول ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک کمرے کے سکول سے اتنا پیسہ بنایا اب یہ صنعت کار بن گئے ہیں۔ دوران سماعت نجی سکول کی وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ تمام سکول 8 فیصد کم کرنے کو تیار ہیں۔

اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 8 فیصد تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 20 سال کا آڈٹ کرایا تو نتائج بہت مختلف ہوں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایک سکول سے آپ ڈھائی سو سکول کے مالک بن گئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے چیئرمین ایف بی آر کو عدالت میں طلب کرنے کا حکم دیا کہ ایف بی آر ان سکولوں کا پچھلے سات برسوں کا ٹیکس ریکارڈ چیک کرے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت 27دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔


یہ خوش آئند بات ہے کہ جناب ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان خود اپنی آنکھوں سے، سندھ کے اندرونی حالات کا مکمل طور پر جائزہ لے کے آئے وگرنہ کوئی دوسرا بندہ۔۔۔ تو کوئی اور قسم کی رپورٹ پیش کرنے میں بھی شاید کوئی جھجک محسوس نہ کرتا۔ سکولوں کی فیسوں کو ریگولیٹ کرنا، ایک انتہائی اہم اقدام ہے۔ آج کے دور میں، تعلیم ایک انڈسٹری بن چکی ہے یہ ایسی انڈسٹری ہے کہ اس کے ذریعے سے ملحد لوگوں کا ایک کثیر گروہ تیار ہو رہا ہے۔

اے لیول، اولیول، گرامر سکولوں، اس قسم کے دیگر (Elite) بچوں کے لئے بنائے گئے اداروں میں تو اسلامیات کا مضمون بھی انگریزی زبان میں پڑھایا جاتا ہے حالانکہ ہماری قومی زبان ’’اردو‘‘ ہے جسے تمام اداروں، دفاتر اور عدالتوں میں صحیح معنوں میں لاگو ہونا چاہئے۔ اس بارے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ اس حوالے سے بہت بڑا لینڈ مارک (Land Mark) ہے اس کا من و عن عملی طور پر تمام اداروں میں نفاذ کیا جانا وقت کی اہم اور ناگزیر ضرورت ہے۔ جبکہ ہم ’’مدینہ ریاست‘‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنی قومی زبان کا اطلاق بہر حال ہونا چاہئے،جہاں وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس پاکستان یہ چاہتے ہیں کہ یکساں نصاب تعلیم ملک بھر میں نافذ کیا جائے اس کے لئے۔۔۔

قومی زبان ’’اردو‘‘ کی ناگزیر ضرورت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ طبقاتی نظام کو رخصت کرنا ہوگا۔ اے لیول، او لیول کی چھٹی کرنا ہو گی جس سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ڈالرز کی بچت ہو گی۔ اتنی خطیر رقم ہم بیرونی ممالک بھیجتے ہیں۔ ہمارا نصاب تعلیم ’’طریقہ تدریس‘‘ اور طریقہ امتحان بلکہ جائزہ (Evaluation) کا طریقہ متعارف کرانا ہوگا۔ یکساں نصاب تعلیم کی تیاری کے لئے قرآن، حدیث، ریاضی، سائنس، فزکس، کیمسٹری، فلکیات، سپیس سائنس، تاریخ، جغرافیہ، سوشل سائنسز کا پڑھایا جانا، ازبس لازم ہے۔ تاکہ معاشرہ میں بگاڑ کی بجائے ایک ’’ متوازن معاشرتی فضا‘‘ پیدا ہو۔ زندگی ادب کا نام، اور ادب زندگی ہے یہ بھلا کیسے آئے گا یہ سوشل سائنسز اور سماجی علوم کے ذریعے آئے گا۔

ملک کے جید علماء بڑے ماہرین تعلیم کی کمیٹیاں مختلف مضامین کے لئے بنائی جائیں، جو کلاس طالب علم کی عمر اور اس کی اس عمر کی صلاحیت کو پیش نظر رکھ کر پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک کا نصاب تیار کریں یہ نصاب تمام اسلامی مدارس اور تمام عصری اداروں میں متعارف کرایا جائے۔ ایسے ہی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لئے۔۔۔ جید علماء اور ماہرین تعلیم کی کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان سے ان کے لئے نصاب تعلیم۔ ’’طریقہ تدریس‘‘ اور ’’طریقہ امتحان‘‘ کے بارے ایک جامع جائزہ لے کر تجاویز مرتب کرائی جائیں۔ ظاہر ہے یہ کام ایک دو سال کا نہیں۔۔۔

ممکن ہے اس میں تین، چار برس لگ جائیں لیکن نصاب تعلیم ایسا ہو جس میں (Mind Application) اور (Critical Thinking) ہو جب تک طالب علم کا ذہن۔۔۔’’سوال اٹھانے‘‘ کے قابل نہیں ہوتا تب تک وہ مقاصد جو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ممکن نہیں ’’ نصاب‘‘ از خود طالب علم کے اندر کا (Potential) یا اس کی سوئی ہوئی صلاحیت کو اُجاگر کرے پھر تحقیق، تنقید، تنقیص، مختلف اندازِ فکر پیدا ہونے میں کوئی چیز رکاوٹ کا باعث نہیں بن سکے گی۔’’ آدھا علم ہم سوال اٹھانے‘‘ سے حاصل کرتے ہیں یہ جبھی ہوگا جب (Mind Application) پیدا ہوگی۔ ایسی ہی سوچ اور صلاحیت نئی سے نئی تحقیق کا باعث بنے گی۔ اور اُمتِ مسلمہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گی اُمتِ مسلمہ کو تو پوری انسانیت کے برپا کیا گیا ہے۔ اس لئے ہم اس اہم فریضہ سے عہدہ برا ہو سکیں گے۔ پوری انسانیت کی رہنمائی اور اسے ہر طرح کی سہولت بہم پہنچانا، ایمان کے ساتھ ساتھ اُمتِ مسلمہ کی اہم ذمہ داری ہے۔


یہ طویل المدتی تعلیم پالیسی ہو گی جس کو ایک مخصوص عرصہ درکار ہوگا۔ اگر قوم تعلیمی سمت پر چلنا شروع ہو جائے۔۔۔ تو پھر منزل تک پہنچنا۔ آسان اور یقینی ہوگا۔ تاہم نجی سکولوں کے لئے ریگولیٹری باڈی کو فعال ہونا پڑے گا اور سپریم کورٹ کے آرڈرز پر من و عن عمل درآمد کرانا ہوگا۔۔۔ جب تک تمام ادارے ’’ یکساں نصاب تعلیم‘‘ کے ذریعے ایک ہی تعلیمی چھتری کے نیچے نہیں آتے، تب تک موجودہ حالات کو (Feasible) بنانا۔ حکومت کی حکمت عملی میں شامل ہونا، از بس لازم ہے تاکہ والدین کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ 5 ہزار سے زیادہ فیس لینے والے سکول۔۔۔ 50 فیصد زائد کی واپسی یا ایڈجسٹمنٹ کا شیڈول بہر حال تیار کریں اور اس کی نوعیت کی سنگینی کو پیش نظر رکھیں تاکہ تمام معاملات احسن طریق سے طے پا سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -