نابالغ مشیر قومی سلامتی
ڈاکٹر معید یوسف پاکستان کے مشیر قومی سلامتی ہیں اور قوم کو بڑی شدومد کے ساتھ قومی سلامتی کا مطلب سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان کا معاملہ کچھ پروفیسر سمتھ جیسا ہے جنہوں نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کو سمجھانے کے لئے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس پر کسی ستم ظریف نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ پروفیسر سمتھ آئن سٹائن سے بھی بڑے جینئس ہیں کیونکہ جب آئن سٹائن نے اپنا نظریہ اضافت پیش کیا تھا تو دنیا میں صرف 12 سائنسدان اسے سمجھ سکے تھے مگر جب پروفیسر سمتھ صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اسے کوئی نہیں سمجھ سکا۔ ڈاکٹر معید یوسف نے جب سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے قوم کو قومی سلامتی کی تو سمجھ نہیں آئی تاہم یہ غلط فہمی ضرور پیدا ہو گئی ہے کہ قومی سلامتی بچوں کا کھیل ہے اور اس کی ذمہ داری ڈاکٹر معید یوسف کو دے دی گئی ہے جو زور و شور سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس عہدے کے لئے بالغ ہونا ضروری نہیں ہے۔ اکٹر معید یوسف جیسا کام وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی کرتے ہیں۔ وہ کسی معاملے پر بڑے زوروشور سے تقریر کریں تو رپورٹر سخت قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ شاہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں اور اس میں سے خبر کیا بنتی ہے۔ مگر جب ڈاکٹر معید یوسف قوم سے ارشاد فرماتے ہیں تو خبریں ہی خبریں بنتی ہیں اور ان میں سے اکثر افسوسناک بلکہ شرمناک ہوتی ہیں۔
پاکستان کے دیہات میں لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ ان کا ہونے والا داماد لاہور میں ہے۔ کیونکہ آج بھی گاؤں میں تصور کیا جاتا ہے کہ لاہور میں کام کرنے والا داماد ان کی بیٹی کو عیش کرائے گا خواہ شادی کے بعد وہ اپنی بیوی سے دوسروں کے گھروں میں کام ہی کیوں نہ کرائے۔ اسی طرح لاہور میں لوگ جوش و خروش سے بتاتے ہیں کہ ان کا داماد نیویارک میں ہوتا ہے۔ نیویارک میں ہماری ایسے ہی ایک داماد سے ملاقات ہوئی تو ہم نے اسے پوچھا وہ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے سسرال کو تو یہ بتایا ہے کہ وہ ہوٹل میں مینجر ہیں مگر آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ میں ہوٹل میں روزانہ پیاز کی دو بوریاں کاٹتا ہوں۔ بیرون ملک رہنے والوں کو پاکستانیوں کو ذلیل کرنے میں خاصا مزہ آتا ہے اور عام طور پر جب وہ پاکستان آتے ہیں تو یہ ان کی مرغوب تفریح ہوتی ہے۔ وہ کسی رشتے دار کے پاس جاتے یں اسے کوئی چار پانچ ڈالر کا تحفہ دیتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ وہ کتنے زبردست ملک میں کتنی شاندار زندگی بسر کر رہے ہیں اور پاکستان میں لوگ کتنی واہیات اور تلخ زندگی کا تجربہ کر رہے ہیں۔ چارپانچ ڈالر دے کر وہ سینکڑوں ڈالر کی بے عزتی کر جاتے ہیں اور لوگ بھی ان سے ذوق و شوق سے بے عزتی کرا لیتے ہیں۔
امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو خبط ہوتا ہے کہ وہ بہت لائق ہیں اور پاکستان میں تو کوئی لائق ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے ایک دوست واشنگٹن ڈی سی میں وکالت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وکالت کی اعلیٰ ڈگری کے لئے ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر چند ماہ بعد محسوس کیا کہ وہ اپنی وکالت کی پریکٹس کے ساتھ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ یونیورسٹی میں ڈین سے ملیں۔ ڈین نے ان کا مسئلہ سننے کے بعد کہا کہ وہ 32 سال سے اس یونیورسٹی میں ہیں۔ لیکچرار بھرتی ہوئے تھے۔ پروفیسر بننے کے بعد اب ڈین بن گئے ہیں مگر انہیں یاد نہیں ہے کہ کسی کو ہم نے داخلہ دیا ہو اور اسے ڈگری نہ دی ہو۔ تاہم کچھ لوگ خود ہی غائب ہو گئے اور ڈگری سے محروم ہو گئے۔ امریکہ کی یونیورسٹیاں جسے داخلہ دیں اسے ڈگری ضرور دیتی ہیں۔ داخلہ عام طور پر بھاری فیس وصول کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ سٹوڈنٹس کو ڈگری دینا یونیورسٹی انتظامیہ کی کتنی بڑی مجبوری ہوتی ہے اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا تھا جب گجرات یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سجاد صاحب نے بتایا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر افغانستان کے کچھ طلباکو داخلہ دے دیا گیا ہے۔ مگر انہیں انگریزی کی سمجھ نہیں ہے۔ وہ صرف پشتو بول اور سمجھ سکتے ہیں اور پشتو ہماری فیکلٹی میں سے کسی کو نہیں آتی۔ تاہم ہمیں انہیں ایم بی بی ایس کی ڈگری دے کر بھیجنا پڑے گا۔
ڈاکٹر معید یوسف نے بوسٹن یونیورسٹی سے پی ای ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور ان کے لائق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر پاکستان کی قومی سلامتی کے امور کے ساتھ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے گمان ہوتا ہے کہ امریکہ کی تعلیم اور ریسرچ نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا اور ہمارا خیال ہے کہ اگر وہ اسی طرح کمالات کا مظاہرہ کرتے رہے تو بوسٹن یونیورسٹی والے یہ ضرور سوچیں گے کہ یونیورسٹی کے پاس جہاں ڈگری دینے کا اختیار ہے وہاں اس کے پاس اسے واپس لینے کا بھی تھوڑا بہت اختیار ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے پہلی قومی سلامتی پالیسی پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس سے پہلے پاکستان قومی سلامتی پالیسی کے بغیر چلتا رہا ہے۔ بلکہ وہ خود اسے قومی سلامتی پالیسی کے بغیر چلانے کا تجربہ کرتے رہے ہیں۔ اس قومی پالیسی کے بہت سے حصوں کو راز رکھنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اب یہ پاکستان کے دشمنوں پر ہے کہ وہ ان خفیہ رازوں تک پہنچنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
صدر بائیڈن امریکہ کے صدر بنے تو ڈاکٹر معید یوسف نے امید ظاہر کی کہ امریکی صدر وزیراعظم عمران خان کو فون کریں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ کبھی مسئلہ نہیں رہا کہ نومنتخب امریکی صدر پاکستانی وزیراعظم کو ضرور فون کرتا ہے اور نہ ہی یہ کسی امریکی روایت کا حصہ ہے۔ مگر ڈاکٹر معید یوسف نے اسے ایک اہم معاملہ بنا دیا۔ امریکی صدر بھی کچھ ایسے ڈھیٹ ثابت ہوئے کہ انہوں نے جناب عمران خان کو فون نہ کیا۔ ایک دن غصے میں آ کر ڈاکٹر معید یوسف یہاں تک کہہ بیٹھے کہ اگر امریکی صدر فون نہیں کرتے تو ان کے پاس دوسرے آپشن بھی ہیں۔ ہم ان کی دھمکی سے پریشان ہو گئے اور ہمیں خیال گزرا کہ وہ کہیں امریکی صدر کو خود فون کرنے کی حماقت نہ کر بیٹھیں۔ ہمیں یہ تو یقین تھا کہ امریکی صدر ان کا فون نہیں سنیں گے مگر ڈاکٹر معید یوسف وہائٹ ہاؤس کے ٹیلی فون آپریٹر کو یہ سمجھانے کی کوشش کر سکتے تھے کہ وہ صدر بائیڈن کو سمجھائیں کہ وہ وزیراعظم پاکستان کو فون کریں وگرنہ ان کے ساتھ بہت برا ہو گا۔
ڈاکٹر معید یوسف ایک ٹی وی چینل پر بتا رہے تھے کہ وہ دس بجے تک اپنے دفتر میں کام کرتے ہیں۔ انہیں اتنا بھی پتہ نہیں ہو گا کہ ان کے سٹاف کو ان سے بھی زیادہ دفتر کو وقت دینا پڑتا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی دیر تک دفتر میں کام کرنے کی وجہ سے بہت سے سٹاف ممبرز کے گھر کشیدگی بھی پیدا ہو چکی ہے۔ کاش! انہوں نے امریکی صدر ریگن کو پڑھا ہوتا جو دو مرتبہ امریکی صدر منتخب ہوئے۔ جنہوں نے سوویت یونین کو توڑا، امریکہ کو معاشی استحکام دیا۔ اسے دنیا کی واحد سپرپاور بنایا۔ صدر ریگن دوپہر کو آرام کرتے تھے اور نو بجے رات کے بعد وہ کوئی ٹیلی فون کال نہیں لیتے تھے۔ قوموں کی ترقی کلرکوں کی طرح کام کرنے میں نہیں ہوتی بلکہ دانشور لیڈروں کے آئیڈیاز کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف کو ہم صرف یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ چند روز چھٹی کریں اور آرام کریں اور اپنے ان سٹاف ممبرز کو بھی آرام کرنے کا موقع دیں جن کی ازدواجی زندگی کو ڈاکٹر صاحب کی رات گئے کام کرنے کی عادت نے جہنم بنا دیا ہے۔