ڈرون کا غیر جنگی استعمال

ڈرون کا غیر جنگی استعمال
ڈرون کا غیر جنگی استعمال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مغرب کا پرنٹ میڈیا ہم مشرق کے مسکینوں کے لئے اپنے بین الاقوامی ایڈیشن شائع کرتا رہتا ہے۔ یہ ایڈیشن ہر روز ہم جیسے ترقی پذیر ملکوں کے اخبارات ایک ملی بھگت معاہدے کے تحت روزانہ چھاپ کر تقسیم کرتے ہیں۔پاکستان کا ایک اخبار ”ایکسپریس ٹریبون“ بھی ایسا ہی کرتا ہے، اور ”دی نیویارک ٹائمز“ شائع کرتا ہے۔

اس ایڈیشن کا حجم بعض اوقات اصل پاکستانی اخبار کے حجم سے بھی بڑھ جاتا ہے لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ اس میں شائع شدہ خبروں کا تعلق شاذ ہی پاکستان سے ہوتا ہے۔ مہینے میں شاید ایک آدھ خبر پاکستان کے بارے میں نظر آ جاتی ہے جس میں پاکستان کے غیر اہم موضوعات پر چھوٹا موٹا تبصرہ کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مغرب کے ابلاغی ٹائی کونوں کے لئے پاکستان لاکھ ایک جوہری اور میزائلی ملک ہوگا لیکن اس سے متعلق ایسی علاقائی یا بین الاقوامی خبروں کی کوریج گویا شجرِ ممنوعہ ہے۔

اہلِ مغرب کو معلوم  ہے کہ پاکستان میں انگریزی اخبارات وہی قارئین خریدتے ہیں جن کو اس زبان سے کوئی نہ کوئی علاقہ ہوتا ہے۔ پاکستان کا انگریزی پرنٹ میڈیا بھی دو تین روزناموں سے عبارت ہے جن میں ڈان، دی نیوز اور ایکسپریس قابلِ ذکر ہیں۔ ایکسپریس ٹریبون کے بین الاقوامی ایڈیشن میں بعض مضامین ایسے بھی شائع کئے جاتے ہیں جو مغربی ابلاغی دنیا کو کنٹرول کرنے والوں کی عقل کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً چند روز پہلے کے ایڈیشن میں ”ڈرون فلیٹ“ (Drone Fleet) کا ذکر کیا گیا ہے۔کس کو معلوم نہیں کہ ڈرون عصرِ حاضر کا مہلک ترین ہتھیار ہے۔خود پاکستان امریکی ڈرونوں کا ایک عرصے تک شکار رہا ہے۔ آج بھی غزہ، اسرائیل اور روس۔ یوکرین کی جنگوں میں ڈرون کا استعمال  اس کثرت سے کیا جا رہا ہے کہ جس کے بارے میں دورائیں نہیں ہو سکتیں۔ اس ڈرون وار فیئر کی خبریں آئے روز مغرب کے میڈیا میں شائع ہوتی ہیں اور اس وارفیئر کے مہلک نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ روس۔ یوکرین جنگ میں جس تعداد میں انسانی جانوں کا اتلاف اور دیگر حربی ساز و سامان کا نقصان ڈرون ٹیکنالوجی نے کیا ہے اتنا نقصان زمینی، فضائی  اور سمندری وار ٹیکنالوجی نے نہیں کیا۔

ابھی تک انسان نے ڈرونوں کو خلائی مشنوں (Missions) میں اس کثرت سے استعمال نہیں کہ جس سے اس کے چند در چند امکانی فوائد کا اندازہ ہو سکے۔ عام خیال یہ ہے کہ انسان فی الحال خلائی سفروں میں انسانوں (یا بعض جانوروں) کو بھیج رہا ہے۔ ہماری زمین سے اوپر فضائی کرّے کی حد 100کلومیٹر ہے۔ اس حد میں کششِ ثقل موجود ہے۔لیکن جونہی یہ حد ختم ہوتی ہے اور خلاء (Space) کا آغاز ہوتا ہے تو وہاں یہ کششِ ثقل موجود نہیں ہوتی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انسان خلاؤں میں بغیر پائلٹ کے یہ جہاز (Drones) بھیجتا لیکن انسان نے ایسا اب تک کیوں نہیں کیا، اس کی خبر ہم جیسے بے خبر باسیوں کو نہیں دی جاتی۔ شاید ایک و قت آئے کہ انسان، زمین پر بیٹھ کر ڈرونوں کو خلاء (Space) میں بھیجے۔ خیال ہے کہ اس سفر کا آغاز چاند سے کیا جائے گا، پھر مریخ اور پھر دوسرے اجرامِ فلکی سے کہ جو ہمارے نظامِ شمسی میں موجود ہیں …… لیکن ڈرونوں کا ایک استعمال اور بھی ہے جس کو ٹیکٹیکل (بمقابلہ سٹرٹیجک) استعمال کا نام دیا جاتا ہے۔

ایمازون (Amazon) مغرب کا ایک بڑا کاروباری ادارہ  ہے جس کی رسائی  اور فوائد کے بارے میں اکثر قارئین آگاہ ہیں۔ اس ادارے نے اپنی اشیاء  کی ٹرانسپورٹیشن کے لئے تیز ترین ذریعہ سفر صرف ہوائی جہاز کو بنایا ہوا ہے۔ آج ہماری بہت سی اشیائے صرف جو ہمارے روزانہ استعمال میں لائی جاتی ہیں (اور ان میں جان بچانے والی ادویات کا غالب ترین حصہ ہے) وہ ہوائی جہازوں کی مدد سے پاکستان میں لائی جاتی ہیں۔ زمینی اور سمندری سفر بمقابلہ فضائی سفر کے زیادہ دورانیے کا سفر ہے اس لئے ہوائی جہازوں کا استعمال اب عام ہو چکا ہے۔ ہر بڑی ٹرانسپورٹیشن کمپنی مثلاً (TCS)وغیرہ نے اپنے اپنے ہوائی جہاز خرید رکھے ہیں جو دن رات ٹرانسپورٹیشن کے سفر کو بہ عجلت طے کرتے ہیں …… اب یہ ٹرانسپورٹیشن ادارے (یا کمپنیاں) ہوائی جہازوں کی جگہ ڈرونوں کا استعمال بھی کررہی ہیں۔ ایمازون نے بھی نہ صرف یہ کہ ہوائی جہازوں کا اپنا ایک بڑا نیٹ ورک بنا رکھا ہے بلکہ اب وہ ڈرونوں کے نیٹ ورک پر کام کررہا ہے۔ ایمازون نے اب یہ پراپیگنڈہ کرنا بھی شروع کر دیا ہے کہ روز مرہ استعمال کی اشیاء جو ہم جیسے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کرتے ہیں وہ مقابلتاً زیادہ سرعت کے ساتھ بذریعہ ڈرونز منگوائی جا سکتی ہیں ……لیکن اس کی مثال جو ایک بین الاقوامی ابلاغی ایڈیشن نے شائع کی ہے، اس کے ایک پیراگراف کا اردو ترجمہ درجِ ذیل ہے:

”ایما زون کے عادی حضرات و خواتین کے لئے ڈرون ٹیکنالوجی کا یہ ”غیر جنگی“ استعمال بہت فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے…… مثال کے طور پر اگر آپ کسی غیر ملک میں کسی کاروباری دورے پر گئے ہوئے ہیں اور ازراہِ اتفاق، اپنے فون کا چار جر گھر بھول آئے ہیں یا ٹوتھ پیسٹ اور برش وغیرہ گھرمیں رہ گئے ہیں تو اپنے موبائل پر ایک بٹن دبائین، آپ ایمازون ہیڈکوارٹرسے منسلک ہو جائیں گے۔ اسے کہیں کہ میں فلاں شہر میں فلاں ہوٹل میں مقیم ہوں یا فلاں ادارے میں موجود ہوں۔میں اپنا چارجر یا ٹوتھ پیسٹ گھر بھول آیا ہوں۔ براہِ مہربانی وہ چارجر اورٹوتھ پیسٹ میرے گھر سے لے کر مجھے ڈلیور کر دیں۔ یہ ڈرون فوراً ہی آپ کو مطلوبہ اشیاء آپ کی جائے قیام پر پہنچا دے گا…… اور آپ خواہ مخواہ کسی بڑے سٹور تک جانے اور وہاں سے یہ مطلوبہ اشیاء خرید کر لانے کی جھنجھٹ سے بچ جائیں گے!“

مجھے یہ تفصیل پڑھ کر بہت ہنسی آئی۔ اول یہ کہ چارجر یا ٹوتھ پیسٹ وغیرہ تو ہر چھوٹے بڑے ہوٹل کی ٹک شاپ پر موجود ہوتے ہیں اور وہاں سے خریدے جا سکتے ہیں۔ آپ کو کیا ضرورت ہے کہ آپ ایمازون ہیڈکوارٹر والوں کو فون کریں اور پھر:

1۔ہوٹل کی چھت پر چڑھ کر ڈرون کی آمد کا انتظار کریں اور

2۔وہ ڈرون جب مطلوبہ اشیاء لے آئے تو آپ بے فکر ہو کر ان کو استعمال میں لائیں۔

کوئی کتنا بھی بڑا بے وقوف ہو وہ ڈرون کے اس استعمال کے فائدے کا مضحکہ اڑائے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ بھلا ایسی چیزوں کا تعلق ڈرون کے استعمال سے کیا ہے؟ اور اگر بالفرض آپ اپنا تھری پیس سوٹ  (اور نکٹائی) یا رات کو پہننے کا سوٹ بھی گھر بھول آئے ہیں تو یہ سب کچھ کسی بھی بڑے ہوٹل میں موجود دکان سے دستیاب ہوگا۔ ایمازون والوں نے یہ مثال دے کر آپ کو جو ڈرون کے غیر جنگی استعمال کی ”صفات“ سے آگاہ کیا ہے تو یا تو ایمازون والے خود پاگل ہیں یا آپ کو پاگل سمجھتے ہیں۔

ہاں اگر وہ یہ مثال دیتے کہ آپ کسی جان لیوا کینسر کے مریض ہیں اور اپنی ”ادویات“ گھر بھول آئے ہیں اور جہاں آپ پہنچے ہیں، وہاں وہ ادویات نایاب ہیں تو بات اور ہوگی۔ دوسرا معاملہ اخراجات کا بھی ہے۔ یہ ڈرون جو آپ کو مطلوبہ ”چارجر یا ٹوتھ پیسٹ“ لا کر دے گا، کیا اس کا خرچہ چارجر اور ٹوتھ پیسٹ سے زیادہ نہیں ہوگا؟ …… یقینا ہوگا…… اور یہی وجہ ہے کہ ڈرون کا غیر جنگی استعمال امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بار نہیں پا سکا۔

پھر جس ہوٹل میں آپ قیام پذیر ہیں وہ سکائی سکریپر ہوٹل ہوگا جس کی متعدد منزلیں ہوں گی۔ آپ کو جس فلور پر کمرہ ملے گا وہاں سے نکل کر بذریعہ لفٹ چھت پر جانا، وہاں پر ڈرون کا انتظار کرنا اور اپنی مطلوبہ ٹوتھ پیسٹ Collectکرنا بہت مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ ہاں اگر آپ کو ہوٹل میں اچانک فالج ہو گیا ہے اور اس کی دوا صرف آپ کے گھر میں پڑی ہے تو بات اور ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی دور کی کوڑی ہے کہ جیسے کسی اخبار کے بین الاقوامی ایڈیشن میں شائع کرنا بعید از فہم ہے۔

مغرب کا باشندہ ہم جیسے مشرقی باشندوں سے ہزار گنا زیادہ تیز فہم ہے۔ اس کو اگر ڈرون کے استعمال کا شعور دینا ہے تو اسے کاروباری رنگ دیا جانا ضروری ہے۔ یعنی  اگر کوئی تھوک کا بیوپاری، کسی دور دراز مقام سے کوئی ایسی اشیاء منگواتا ہے جس کی لاگت کا تخمینہ سمندری یا زمینی یا ہوائی راستے سے زیادہ ہو جاتا ہے اور ڈرون کی لاگت اس سے کم تر ہے تو یہ دوسری بات ہے۔

مغربی اقوام تو ویسے بھی جنم جنم کی کاروباری اقوام ہیں۔ کاروبار ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ کاروباری منفعت کے لئے جنگوں تک چلی جاتی ہیں۔ ان کو ڈرونوں کی احتیاج اس وقت ہوگی جب دوسرے وسائلِ سفر ڈرون کی نسبت زیادہ مہنگے ہو جائیں گے……

فی الحال تو ڈرونوں میں میزائل نصب کرکے ان کو دشمن پر وار کرنے کے لئے استعمال میں لانا ہی اقوامِ مغرب کی اولین ترجیح ہے۔ ایمازون اگر لاکھ کوشش کرے تو بھی اس ٹیکنالوجی کا غیر جنگی استعمال زیادہ مہنگا ہوگا…… ہاں، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، ڈرون کو خلائی سفر پر بھیجنا اور وہاں کی خبریں لانا شاید مستقبل قریب میں ممکن ہو سکے!

مزید :

رائے -کالم -