ہسپتال بالکل نیا نیا بنا تھا، سفارشی لوگوں کی بھرمار تھی،پاکستانی روایات کے مطابق ان کو کچھ کہنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تھا، میں نے بہت محنت کی

 ہسپتال بالکل نیا نیا بنا تھا، سفارشی لوگوں کی بھرمار تھی،پاکستانی روایات ...
 ہسپتال بالکل نیا نیا بنا تھا، سفارشی لوگوں کی بھرمار تھی،پاکستانی روایات کے مطابق ان کو کچھ کہنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تھا، میں نے بہت محنت کی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:320
ہسپتال کی انتظامیہ کے لیے شاید میرے سابقہ ہسپتال کا نام اور اس میں کی گئی ایک قابل رشک ملازمت کوئی وجہئ کشش بنی ہو اور انھوں نے مجھے اس ملازمت کے قابل سمجھا ہو۔ انھوں نے یقینا سوچا ہوگا کہ اگر یہ اتنے بڑے اور بین الاقوامی معیار کے ہسپتال میں اتنی طویل مدت ملازمت کر کے آیا ہے تو یقینا اس کو کچھ نہ کچھ تو آتا ہی ہوگا۔ پھر میں نے بھی ان کو مایوس نہیں کیا۔ میں نے بہت محنت کی اور انھوں نے بھی تعاون کی انتہا کر دی۔
ہسپتال بالکل نیا نیا بنا تھا اور اس میں ملازمین کی ابتدائی بھرتیاں شروع ہو گئی تھیں لیکن تمام تر جدیدیت کے باوجود کچھ روایتی طریقے اپنائے گئے تھے، سفارشی لوگوں کی بھرمار تھی اور ان کو بغیر کسی قابلیت اور تجربے کے، بہت ہی اہم اسامیوں پررکھ لیا گیا تھا، کچھ’اپنے‘ لوگ بھی آ پہنچے تھے۔ یہ طریقہ کار کسی طور بھی ایک اچھے ہسپتال کی تنظیمی ترجیحات میں نہیں آتاتھا۔ چونکہ زیادہ ترملازمین بڑے تواتر سے ہسپتال کے اعلیٰ آفیسروں اور مالکان سے اپنے کسی تعلق واسطے کا ذکر کرتے رہتے تھے، اس لیے پاکستانی روایات کے مطابق ان کو کچھ کہنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تھا۔اس کا اندازہ مجھے جلد ہی ہو گیا۔ جب ایسے ہی ایک ملازم کو حاضری لگانے کے لئے کہا گیا تو نہ صرف یہ کہ اس نے انکار کر دیابلکہ استہزائیہ لہجے میں کہا ”کیا اب ہم کو بھی حاضری لگانا پڑے گی“۔ 
یہاں ابھی تک دورجدید کی سہولتوں خصوصاً کمپیوٹر وغیرہ سے نا بلد ملازمین تھے۔ کم تعلیم یافتہ، شلواروں قمیضوں میں ملبوس، داڑھیاں بڑھائے ہوئے عجیب و غریب حلیے والے لوگ استقبالیہ پربیٹھے ہوئے تھے، جو ہسپتال سے زیادہ کسی لاری اڈے کے ملازمین لگتے تھے۔ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا، مگر بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت تھی۔دوسرے محکموں کا بھی تقریباً یہی حال تھا، کسی کی کوئی مخصوص ڈیوٹی نہیں تھی۔ جس کو جو کام دے دیا جاتا وہ اسے کرنا ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ اکاؤنٹس مینجر بجلی کے میٹر لگواتا پھرتا تھا، یاقانونی پیچیدگیوں میں گم رہتا تھا۔ ہسپتال میں ملازمین کی حد تک کسی کے رتبے کا خیال تھا اور نہ ہی اپنی پوزیشن کا احساس۔آپس میں ایک دوسرے سے رابطوں کا بھی فقدان تھا۔
مہینہ ختم ہوا تو میں نے ہسپتال کیفے ٹیریا کے منیجرکو اپنا چائے اور کھانے کا بل بھجوانے کو کہا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں، وہ بے یقینی کے عالم میں مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ”سر کیا آپ بھی بل کی ادائیگی کریں گے؟“ پوچھا کیا مطلب؟ بولا ”یہاں تو ہسپتال کے بعض ماتحت آفیسروں کا کھانا بھی ان کے گھروں میں مفت پہنچایا جاتا ہے اور آپ۔۔؟“ بہت زیادہ شرمندہ سا ہو رہا تھا وہ، میں نے کہا ”دیکھو میری ملازمت کی شرائط میں ایسی کوئی شق شامل نہیں ہے کہ مجھے ہسپتال کھانا بھی فراہم کرے گا۔ لہٰذا اس کی ادائیگی میری ذمہ داری ہے“۔ ظاہر ہے اس کے بعد دوسروں کا مفت کھانا بھی بند ہو گیا جو یقینا انھیں پسند نہیں آیا ہو گا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -