بدقسمتی ہے کہ فیصل آباد کا مثالی منصوبہ آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر گیا، پھر پرانے نظام کی طرف لوٹ آئے،حکومت نے مہنگے منصوبے شروع کر دئیے

بدقسمتی ہے کہ فیصل آباد کا مثالی منصوبہ آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر گیا، پھر ...
بدقسمتی ہے کہ فیصل آباد کا مثالی منصوبہ آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر گیا، پھر پرانے نظام کی طرف لوٹ آئے،حکومت نے مہنگے منصوبے شروع کر دئیے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:151
فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ناظم رانا زاہد توصیف ایک کاروباری شخصیت تھے اور شہر کے تمام مسائل اور وسائل سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ شہر کو ترقی دینے کے لیے بھی کوشاں اور پرجوش تھے۔ ہماری ان کے ساتھ کئی طویل نشستیں ہوئیں اور ہم ان کی حکمت عملی اور نقطہ نظر سے بہت متاثر ہوئے  تھے۔ ان کی سب سے اہم تجویز یہ تھی کہ شہری ترقیاتی کام میں نجی شعبے کو بھی شامل کیا جائے۔ انھوں نے کافی غور و خوض کے بعد ایک پلان بنایا ہوا تھا جس میں حکومت پنجاب نے ایک تہائی سرمایہ فراہم کرنا تھا، ایک تہائی بلدیاتی اداروں سے اکٹھا کرنا تھا اور باقی کا ایک تہائی نجی اداروں سے حاصل کرنا تھا۔یہ ایک بہت اچھی تجویز تھی جس سے راہ میں حائل مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے نجی شعبہ کی طرف سے ان کی مالیاتی معاونت کا تعین کیا جاتا اور اس پھر اس سلسلے میں ان کے عزم اور ثابت قدمی کا اندازہ بھی ہو جاتا۔ ہم فیصل آبار کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعلیٰ حکام کو ملے اور ان کے ساتھ کئی صنعتی اسٹیٹ کا دورہ بھی کیا۔ اندازہ لگایا گیا کہ پاکستان کی برآمدات میں فیصل آباد 3سے 4ارب ڈالر کا حصہ ڈالتا تھا جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کا  ایک اور منصوبہ یہاں کے ٹرانسپورٹیشن نظام کا بھی تھا جو 2006 ء سے نجی شعبہ کی اعانت کے ساتھ چل رہا تھا۔ یہ فیصل آباد کے اُس وقت کے کمشنر تسنیم نورانی کے ذہن کی اختراع تھی۔ 100 بسوں کا ایک بیڑہ بنایا گیا جس کو نجی شعبے نے چلانا تھا لیکن اس کی تمام تر انتظامیہ کو مقامی بلدیاتی اداروں نے دیکھنا تھا۔ یہ ایک بہترین نظام تھا جس کے نتیجے میں عوام کو ٹرانسپورٹیشن کی سہولیتں میسر آ گئیں جبکہ حکومت اس منصوبے پر کچھ خرچ کرنے کے بجائے ہر بس کے عوض 1500 روپے ماہوار نجی کمپنیوں کے مالکان سے وصول کرتی تھی جس سے اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی تھی جو سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور بنیادی ڈھانچے کی دیکھ بھال کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس تجربے کو بنیاد بنا کر دوسرے شہروں میں بھی اسے نافذ کرنے کے بجائے فیصل آباد کا یہ مثالی منصوبہ آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر گیا اور وہ ایک بار پھر پرانے نظام کی طرف لوٹ آئے جہاں حکومت نے اپنے مالی وسائل سے ٹرانسپورٹیشن کے مہنگے منصوبے شروع کر دئیے۔ پھرکئی برس بعد اوبر اور کریم جیسی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے کاروباری بنیاد پر نجی شعبے پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کیساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ جن کی دیکھا دیکھی اور بھی نجی کمپنیا ں اور ادارے وجود میں آئے، اور یوں نجی شعبے کے تعاون کے ساتھ ایک بہت اچھا ٹرانسپورٹیشن کا نظام چل پڑا۔ ہم فیصل آباد کے نظام سے اتنا متاثر ہوئے کہ ہم نے یہاں کے ناظم کو منیلا میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی تاکہ وہ فیصل آباد میں متعارف کروایا گیا نظام اور اس سلسلے میں اپنے تجربات بیان کر سکیں۔
مصطفیٰ کمال کراچی کی مقامی حکومت کے ایک بہت ہی  فعال اور گرم مزاج ناظم تھے۔ اُنھیں ان کی پارٹی یعنی ایم کیو ایم اور صدر پاکستان مشرف کی پشت پناہی حاصل تھی اور اسی لیے ان کو جاری منصوبوں کے لیے کھلے دل کے ساتھ رقوم جاری کی جاتی تھیں۔ ہم ان سے ملے اور کراچی کی بڑی بڑی مشکلات اور ان کے حل کے متعلق رکاوٹوں کے بارے میں پوچھا۔ جس میں بارشوں کے بعد کراچی کے شہری علاقوں میں سیلابی صورت حال اور اس کے کنٹرول بارے لیے گئے اقدامات کا پوچھنا چاہا تو انھوں نے یہ کہہ کر اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کیا کہ یہ معمولی نوعیت کے مسئلے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ میرے کراچی کے اگلے دورے کے دوران کراچی میں شدید بارش ہوئی جس سے3 دن تک کراچی کا کاروبار زندگی مفلوج رہا۔ 
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -