شعیب بن عزیز
شعیب بن عزیز صاحب کی سالگرہ آئی اور چپکے سے گزر گئی مگر ماضی کی یادوں کے بہت سے دریچے واگزار کر گئی۔ہم نے تین سے زائد عشرے ان کی محبت اور عقیدت میں گزار دیئے۔ سرکاری ملازمت سے پہلے ہی ان سے تعلق قائم ہو چکا تھا۔ وہ اکثر جناب مجیب الرحمن شامی صاحب سے ملنے آتے تھے۔ شامی صاحب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں کوئی زبردست جملہ سوجھ جائے تو وہ جملہ ضائع نہیں کرتے دوست کو ضائع کرنے کا رسک لے لیتے ہیں مگر ان کے دوست ان کے جملوں کو انجوائے کرتے ہیں، انہیں چھوڑتے نہیں ہیں۔ شعیب صاحب جملہ بازی میں اکثر بازی لے جاتے تھے اور کبھی کبھی تو وہ شامی صاحب پر بھی کوئی جملہ چست کر دیتے تھے جس پر شامی صاحب زوردار قہقہہ لگا کر داد دیتے تھے۔ شعیب صاحب سے ملاقات سے پہلے ان کے اس شعر سے ملاقات ہو چکی تھی۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
محکمہ تعلقات عامہ میں آئے تو پتہ چلا کہ اس کا ایک نام شعیب صاحب کا محکمہ بھی ہے یہ قابل فخر بات تھی مگر جب خوبصورت لڑکیاں شعیب صاحب کے شعر سناتی تھیں توکچھ اچھا نہیں لگتا تھا اور ہم اس احساس کو حسد کی بجائے رشک بنانے کی کوشش کرتے تھے۔
شعیب صاحب پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے فارغ التحصیل تھے ہم نے بھی یہاں سے ہی ایم اے صحافت کیا تھا شعبہ صحافت میں بھی ان کا نام چلتا تھا ان کے لطائف سنا کر قہقہے لگائے جاتے تھے، لڑکے ان کے لطائف سناتے ہوئے یہ احتیاط کرتے تھے کہ یہ لڑکیوں کے کانوں میں نہ پڑیں۔ کسی جگہ لڑکیاں بہت زوردار قہقہے لگاتی ہو ئی نظر آتی تھیں تو لڑکے ان پر شبہ کرتے تھے کہ ضرور شعیب صاحب کے لطیفے سنائے جا رہے ہوں گے۔ شعیب صاحب کے لطیفے سنے سنائے نہیں ہوتے تھے بلکہ یہ مختلف مواقع پر برجستہ جنم لیتے تھے اور زبان زدعام ہو جاتے تھے۔ خوف فساد خلق سے ان کے لطیفوں کو ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکتا مگر ان کا ایک واقعہ جو لطیفہ بن گیا وہ یہ بھی تھا کہ وہ ایک روز چیئرمین صاحب کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ ان کو ڈگری مل چکی ہے اور اب انہیں کریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔ چیئرمین صاحب ہیٹ پہنتے، سگار پیتے تھے اور خوبصورت انگریزی بولتے تھے انہوں نے سٹائل سے سگار کا کش لے کر دھواں چھوڑتے ہوئے شعیب صاحب کو گھورا اور کہا
"Mr. Shoaib Bin Aziz- There should be a character for character certificate."
یہاں کریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پر ان کی حاضر جوابی کی ذہانت غالب آ گئی اور انہوں نے کہا
"Sir to give or to take."
چیئرمین صاحب کا پارہ چڑھنے لگا لیکن شعیب صاحب دھماکہ ہونے سے پہلے ہی کمرے سے نکل آئے۔
ڈی جی پی آر میں شعیب صاحب باقاعدگی سے آتے تھے، ہر روز مجلس بپا ہوتی تھی، نامور شاعر اور ادیب آتے تھے۔ یہاں ایک مجلس میں جناب شاہد ملک صاحب سے ملاقات ہوئی جو ان دنوں بی بی سی لندن سے نئے نئے لاہور منتقل ہوئے تھے یہ ملاقات پھر ایک گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی ان دنوں شعیب صاحب شاعری کرتے تھے اور شبہ کیا جا سکتا ہے کہ عشق بھی کرتے ہوں گے یا خوبصورت لوگ ضرور ان سے عشق کرتے ہوں گے، ان کی دلفریب اور محبت کرنے والی شخصیت میں ایک جادو تھا۔ وہ سرکاری کام کرنے کا بھی کبھی کبھی رسک لے لیتے تھے۔ وہ وزیر کے ساتھ پی آر او لگتے تھے تو وزیر اپنے آپ کو ان کا پی آر او محسوس کرنا شروع کر دیتا تھا۔ شاعری، خوبصورت گفتگو، چائے، دانش کے موتی غرض شعیب صاحب کی مجلس میں سب کچھ ملتا تھا۔ مگر پھر اچانک وہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پی آر او بن گئے کچھ عرصہ بعد ڈی جی پی آر بن گئے۔ اب شعیب صاحب صرف کام کرتے تھے، بلکہ صرف کام ہی کرتے تھے۔ ہمارے ایک دوست سرکاری افسر نے بتایا کہ ایک روز وہ وزیراعلیٰ کے پاس بیٹھے تھے اور یہ ایسا وقت تھا جب کبھی کبھار شہبازشریف مسکرانے کی مشقت برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے۔ شعیب صاحب نے کہا ”سر میں شادمان گیا اور وہاں ایک عورت ملی جس نے کہا کہ میں آپ کی بیوی ہوں۔“ وزیر اعلیٰ نے قدرے حیرت سے شعیب صاحب کو دیکھا تو انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ”سر میں نے اسے قدرے حیرت سے دیکھا تو اس نے کہا کہ شعیب صاحب میں آپ کی بیوی ہوں۔“
”پھر کیا ہوا؟“ وزیر اعلیٰ نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میں اسے دیکھ رہا تھا مگر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مگر وہ بار بار اصرار کر رہی تھی کہ میں آپ کی بیوی ہوں۔“
”پھر کیا ہوا؟“ حیرت اور تجسس نے وزیراعلیٰ کو قابو کر لیا تھا۔ اس پر شعیب صاحب نے کہا ”سر میں نے زیادہ غور سے دیکھا تو وہ واقعی میری بیوی تھی کیونکہ جب سے آپ کے ساتھ کام کرنا شروع کیاہے تو آپ کے سوا کوئی دوسرا چہرہ یاد ہی نہیں رہا۔“
شعیب صاحب اپنے فرائض کچھ ایسے ہی ادا کرتے تھے۔ پرویزالٰہی کے ساتھ کام کرتے ہوئے بھی انہوں نے کام سے بے پناہ لگن کی اسی ادا کو جاری رکھا۔ شعیب صاحب نے تعلقات عامہ کے افسروں اور ملازموں کا ایک بڑا مسئلہ حل کر دیا، انہیں صحافی کالونی میں رہائشی پلاٹ دلا دیئے، ان کا یہ بہت بڑا کام تھا، اپنے ڈی جی پی آر کے دور میں میری خواہش تھی کہ ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کی کوئی یادگار بنائی جائے۔ مگر احباب اصرار کرتے تھے کہ ایک تو یہ خوشامد سی نظر آئے گی اور دوسرے ہمارے ہاں زندہ لوگوں کے کمالات کا اعتراف کرنے کے لئے ان کے فوت ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے مگر شعیب صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے فوت ہونے کا کوئی امکان نہیں انہوں نے تھوڑی شاعری کی ہے مگر ایسی شاعری کی ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گی اور انہیں بھی زندہ رکھے گی اگر کسی کو شبہ ہو تو ان کے ان شعار پر ایک نظر ڈال لے جو ہمیں نازبٹ صاحبہ نے بھجوائے تھے۔
پختہ گھروں کو چھوڑ کے کشتی میں آ گئے
دریا کا خوف لوگوں کو دریا میں لے گیا
--------
ہمیں یہ خاک نشینی ملی ہے نسل بہ نسل
عجیب عجز ہے جس میں نسب ملا ہوا ہے
نوائے حسن میں اک سْر ہے اداسی کی
کنارِ شام سے دامان شب ملا ہوا ہے
--------
کہیں روکے کوئی دست اجل کو
ہمارے لوگ مرے جاتے ہیں
--------
ڈوبتی شام کی پھٹکار ہو مجھ پر میں اگر
چڑھتے ہوئے سورج سے کبھی ہاتھ ملانا چاہوں
--------
خبر ہم کو بھی تھی مرنا پڑے گا عشق میں لیکن
ہمیں اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے
--------
لکھا رکھا ہے عہد ترک الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں
--------
ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن
کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا
--------
پرانے شہر میں زندہ ہیں یاد کر کے انہیں
گئے ہوؤں کے جنہیں نام تک نہیں آتے
--------
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب؟
میں تیرے فقیروں میں، میں تیرے غلاموں میں
--------
شہر میں جو بھی تنہا ہو گا
اس کا چہرہ مجھ سا ہو گا
--------
تنہائی کے دوزخ سے بھی گزرا ہوں میں لیکن
بے لطف رفاقت کا عذاب اور ہی کچھ ہے