دلدل
ٹرین امرتسر سے دہلی جا رہی تھی۔ چاروں طرف سکھ مسافر نظر آ رہے تھے۔ مگر ایک ڈبے میں ایک پاکستانی نوجوان کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا تیزی سے دوڑتی ہوئی ٹرین کے ڈبے سے دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کو دیکھ رہا تھا۔ ساتھ کی نشستوں پر بیٹھے ہوئے سکھوں کو یہ پتہ چلا کہ نوجوان کا تعلق لاہور سے ہے تو وہ جذباتی سے ہو گئے۔ وہ نوجوان کی خاطر تواضع کرنے لگے۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سکھ بڑے ذوق و شوق سے لاہور کی باتیں پوچھ رہے تھے۔ لاہوری نوجوان بھی مزے مزے کے جواب دے رہا تھا۔ اتنے میں ایک سکھ نے کہا ”ہم نے سنا ہے کہ آپ لوگوں نے پاکستان میں سکھوں کے متعلق بہت سے لطائف مشہورکر رکھے ہیں۔“
”ہاں بات تو سچ ہے مگر اکثر لطیفے پاکستان میں سکھوں کے حوالے سے اور بھارت میں وہی لطیفے مسلمانوں کے حوالے سے بیان کئے جاتے ہیں۔“ نوجوان نے متانت سے جواب دیا۔اب اس سکھ نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ نوجوان پاکستان میں سکھوں کے متعلق مشہور ہونے والا کوئی لطیفہ سنائے۔ نوجوان نے ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ لطیفہ سنا کر ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ابھی چار گھنٹے کا سفر باقی ہے اور لطیفے کی بدمزگی اس سفر کو عذاب بنا سکتی ہے۔ مگر سکھوں کا لطیفہ سنانے پر اصرار جاری رہا۔ آخر ایک بزرگ سکھ نے نوجوان کو مشورہ دیا کہ وہ کوئی معقول سا لطیفہ سنا دے تاکہ ماحول میں بدمزگی بھی پیدا نہ ہو اور لطیفے کی فرمائش بھی پوری ہو جائے۔ نوجوان نے چند لمحے سوچا اور پھر لطیفہ سنانا شروع کیا ”ایک سکھ نے اپنی قمیض کی جھولی میں کوئی چیز ڈالی ہوئی تھی۔ اسی حالت میں وہ ایک دوسرے سکھ کے پاس گیا تو اس سکھ نے دریافت کیا کہ اس کی جھولی میں کیاہے؟ سکھ نے کہا کہ اگر وہ یہ بتا دے کہ اس کی جھولی میں کیا ہے تو یہ جھولی والے بارہ کے بارہ انڈے اس کے ہوئے۔ سکھ نے کہا کہ وہ کوئی نجومی نہیں ہے کہ وہ بتا دے کہ اس کی جھولی میں کیا ہے۔ اس لئے اسے کوئی نشانی بتائی جائے۔
پہلے سکھ نے کہا کہ نشانی اتنی ہے کہ اگر تم بتا دو تو یہ بارہ کے بارہ انڈے تمہارے ہوئے۔
مگر دوسرے سکھ نے اصرار کیا کہ کوئی نشانی بتائی جائے۔ اس پر پہلے سکھ نے کہا کہ اچھا یہ جو چیزیں میری جھولی میں ہیں یہ باہر سے سفید ہیں اور اندر سے کچھ سرخ پیلی سی ہیں۔
دوسرے سکھ نے غور کرنا شروع کر دیااور آدھ گھنٹے کی سوچ بچار کے بعد بولا ”تم تو بڑے بدمعاش ہو تم نے مولیوں میں گاجریں ٹھونس رکھی ہیں۔“لطیفہ سن کر سکھوں نے زوردار قہقہ لگایا، نوجوان کو داد دی اور باتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ چند منٹ بعد برتھ پر لیٹے ہوئے نوجوان نے نیچے جھانکا اور پاکستانی نوجوان سے مخاطب ہو کر دریافت کیا ”بھائی جی! اگر لطیفہ ختم ہو گیا ہے تو یہ بتا دیں کہ اس سکھ کی جھولی میں کیا تھا؟“
آج یہ لطیفہ یاد آ رہا ہے اور جاوید چوہدری صاحب کے پروگرام میں شیر افضل مروت اور افنان اللہ خان کی لڑائی سے یاد آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس پر ہونیوالے پروگرام اور پوسٹیں دیکھ کر یاد آ رہا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے سب لوگ پوچھ رہے ہیں ”اس سکھ کی جھولی میں کیا تھا؟“
جاوید چوہدری سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ مگر ان کے علم و فضل اور مقبولیت سے ا نکار نہیں کر سکتے۔ پاکستانی رائے عامہ کو وہ برسوس سے متاثر کر رہے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والے موجود ہیں تو ان کے مداحوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنے پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما اور پی ٹی آئی کے بھی ایک رہنما کو مدعو کیا۔ ایک بڑے چینل پر دکھائے جانے والے اس پروگرام میں دو معزز لیڈروں نے ایک دوسرے کی خوب پٹائی کی اور اب دونوں پارٹیوں کے حامی اپنے اپنے لیڈر کی حمایت میں آواز بلند کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ ان کے لیڈر نے دوسرے کی زیادہ پٹائی کی۔مگر کوئی اس پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ یہ ایک انتہائی شرمناک واقعہ ہے۔ یہ قومی مزاج میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی خطرناک نشاندہی کر رہا ہے۔ جمہوریت میں دلیل سے بات کی جاتی ہے۔ دلیل سے جواب دیا جاتا ہے۔ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے متعلقہ لیڈروں کے جاہلانہ اور متشدد رویئے میں ہیرو تلاش کیا جا رہا ہے؟ ہم اس پر غورکرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ہم قوم کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں؟
برسوں پہلے پیپلزپارٹی کے ایک وزیر افتخار تاری سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم اپنے آپ کو قومی مجرم سمجھتے ہیں کیونکہ ہم نے قوم کو بدتمیز بنانے میں بہت شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے لوگوں کو دوسروں کو بے عزت کرنے کا کلچر دیا ہے۔“
آج سوشل میڈیا پر جو کچھ نظر آ رہا ہے اس میں افتخار تاری تو ولی اللہ نظر آتے ہیں۔آج مواد کو پرکشش اور دلچسپ ہونا چاہیے۔ اس کے لئے جھوٹ، مبالغہ، فراڈ غرض آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ کی پوسٹ یا ویڈیو مقبول ہونی چاہیے کیونکہ اس سے آپ شہرت ہی نہیں دولت بھی کما سکتے ہیں۔اس کوشش میں سچ کو قتل کیا جاتا ہے۔ بدتمیزی حسن کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور لوگ تیزی سے ایسے تماش بینوں میں تبدیل ہو رہے ہیں جو تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سچ نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہیں اختلاف پسند نہیں ہے کیونکہ یہ اکثر بور ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی وبا ہے جس کا شکار بڑے بڑے دانشور ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ جن سے قوم کے مزاج کو بنانے اور تبدیل کرنے کی امید کی جا سکتی تھی وہ اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔
ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ انگریز سو سال پہلے سوچتا ہے۔ ہندو پچیس سال پہلے سوچتا ہے۔ مسلمان وقت پر سوچتا ہے جبکہ سکھ پچیس سال بعد سوچتا ہے۔ مگر اب یہ قول بدل چکا ہے۔ سکھ وقت سے پہلے سوچتے ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی مسلمان پچیس سال کے بھی بعد سوچتا ہے۔
آج پاکستان میں ایسے لوگ نظر نہیں آتے جو مقبولیت کی پرواہ کئے بغیر یہ کہنے کی جرات رکھتے ہوں کہ یہ سوشل میڈیا قوم کو کدھر لے جا رہا ہے؟ جھوٹ اور پراپیگنڈے کو اتنے وسیع پیمانے پر کلچر کیوں بنایا جا رہا ہے؟ اور اس سب کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بھارت میں بڑے نوٹ بند کئے گئے تو من موہن سنگھ نے کہا کہ اس سے بھارتی معیشت کی گروتھ ایک فی صد کم ہو گی اور واقعی بھارتی معیشت کی گروتھ ایک فیصد کم ہوئی۔ پاکستان میں کوئی دانشور سوشل سائنسدان یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ جھوٹ کے ٹرینڈ معاشرے کو کیسے متاثر کریں گے؟ اور کیسے لوگ اگلی نسل کے ہیرو بن رہے ہیں؟مایوسی اور بے یقینی قوم کو کدھر لے جائے گی اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھتا ہوا انتشار قوم کو کس دلدل کی طرف دھکیل رہا ہے؟ ہم اس پر ضرور غور کریں گے۔ اس پر خوب لعنت ملامت بھی ہو گی۔ مگر ذلت، رسوائی اور زوال کی دلدل میں گرنے کے 25سال بعد۔۔