وارڈن وارڈن کا کھیل اور ہم سب
لاہور میں ایک دلچسپ جنگ کا میدان لگا ہے۔ یہ کہانی ہیلمٹ نہ پہننے پر ہونے والے چالان اور سختی سے شروع ہوئی۔ لگ بھگ دو ماہ قبل ٹریفک پولیس کی جانب سے ہیلمٹ کی پابندی کے حوالے سے کمپین شروع کی۔ ہم نے اس پر توجہ نہیں دی۔ دو ماہ تک کسی نے ہیلمٹ نہیں لیا۔ پھر عدالت نے ایک تاریخ مقرر کر دی اور اس کے بعد چالان کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چالان ہوئے تو تقریباً اسّی فیصد شہریوں نے قانون کی پابندی شروع کر دی۔ پھر میڈیا میدان میں اُترا۔ ہمارے بعض دوستوں نے ٹریفک وارڈنز ، پولیس اور سرکاری گاڑیوں کو ٹارگٹ کیا۔ مقامی چینل کے ایک اینکر جو بائی نیچر بہت اچھے انسان ہیں۔ انہوں نے صحافتی فرائض اداکرتے ہوئے وارڈن کی طرح برتاو شروع کردیا اورایک سرکاری افسر کی گاڑی روک کر لائسنس طلب کر لیا۔ افسر نے ان کی کلاس لگا دی ’’ میں وارڈن کو لائسنس دکھا سکتا ہوں آپ کس حیثیت سے لائسنس مانگ رہے ہیں ؟‘‘ سرکاری افسر درست تھے کیونکہ ریاست آپ کو یا مجھے یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے کاغذات طلب کرے ، اس کی تلاشی لے یا اس سے تفتیش کرے۔ ایسا ہوا تو جنگل کا قانون رائج ہو جائے گا۔ ہمارے صحافی دوست پولیس اہلکاروں کی موٹر سائیکل روک روک کر چابیاں نکالنے لگے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی وارڈن دوران کوریج آپ کے کیمرے کا اینگل درست کروائے اور آپ کا مائیک پکڑ کر رپورٹنگ شروع کر دے۔
صحافت ایک فریم کے اندر رہ کر ہوتی ہے ، میاں صاحب کو چاہیے تھا کہ رپورٹ کرتے کہ فلاں اہلکار یا وارڈن ہیلمٹ کے بنا جا رہا ہے لیکن اسے روکا نہیں گیا ، پھر وہاں موجود ڈیوٹی وارڈن سے اس کا موقف لیتے کہ آپ نے پیٹی بھائی کو کیوں نہیں روکا ، اس کے بعد سی ٹی او سے سوال کرتے کہ ٹھیک ڈیوٹی نہ کرنے والے وارڈن کے خلاف کیا کارروائی کر رہے ہیں اور پھر بطور اینکر اپنا سوال اور رائے عوام کے سامنے رکھتے۔ اس کی بجائے ہمارے دوست خود ہی تھانیدار بن گئے۔ انہوں نے جس طرح پروگرام کیا اس پر متعدد صحافیوں نے بھی اعتراض کیا۔ البتہ پروگرام کو خوب ریٹنگ ملی۔
بنیادی طور پر پروگرام میں پولیس اہلکاروں اور وارڈنز کی تذلیل کی گئی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ایک شخص نہیں بلکہ پورا محکمہ کرپٹ ہے۔ اگلے روز کچھ وارڈنز نے بھی حساب برابر کرنا شروع کر دیا۔صحافی نے ان اہلکاروں اور وارڈنز کو خوب ذلیل کیا جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے تھے لیکن تاثر یہ دیا کہ پورا محکمہ ہی ایسا ہے۔ ہمارے یہاں بعض صحافیوں کی بھی عادت ہے کہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ وارڈنز کے پاس کوئی چینل نہیں تھا لیکن اگلے روز انہوں نے ایسے صحافیوں کی موبائل سے ویڈیو بنا لی جو قانون شکنی کے ساتھ ساتھ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے تھے اور میڈیا کا رعب جماتے تھے۔ یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئیں تو ایک کمیونٹی کے طور پر صحافیوں نے شدید ردعمل دیا۔ یہ ویڈیو صرف ان صحافیوں کی بنیں جو قانون شکنی کے بعد چالان سے بچنے کے لیے میڈیا پرسن ہونے کا رعب ڈال رہے تھے۔ جن صحافیوں نے اپنی غلطی مانتے ہوئے خاموشی سے چالان کروایا ان کی ویڈیو نہیں بنی۔
صحافیوں کی جانب سے وارڈنز کی ویڈیو اپ لوڈ کرنے کا بطور کمیونٹی وارڈنز نے برا منایا اور وارڈنز کی جانب سے صحافیوں کی ویڈیو کا صحافیوں نے بطور کمیونٹی برا منایا۔ اس سے اگلے روز سی ٹی او لاہور نے واضح کیا کہ انہوں نے کسی کو ویڈیو بنانے کا نہیں کہا تھا۔ دوسری جانب عدالت نے بھی اس طرح ویڈیو بنانے سے منع کر دیا۔ سی ٹی او لاہور کی اچھی یا بری عادت ہے کہ وہ خود اپنے اہلکاروں کو کرپشن پر برطرف کر دیں لیکن کوئی اور ان کی ماتحت فورس پر دباؤ یا رعب ڈالے تو اس کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ پولیس اہلکار پر تشدد کے جرم میں بطور ڈی پی او بہاولنگر بار کے عہدے داروں اور سینئر وکلا کو باقاعدہ ایف آئی آر درج کر کے حراست میں لے چکے ہیں۔ محرم میں پولیس کے خلاف غلط رپورٹنگ پر بطور ڈی پی او جھنگ صحافی کے خلاف پرچہ درج کروا چکے ہیں۔ لاہور میں وارڈن پر تشدد کے جرم میں بطور سی ٹی او سینئر کرائم رپورٹر کے خلاف مقدمہ درج کروا چکے ہیں۔ یہ پنگے وہی لے سکتا ہے جو خود کرپٹ نہ ہو اور اس کی کوئی کمزوری نہ ہو۔ دوسری جانب وہ جہاں جہاں ڈی پی او رہے وہاں متعدد اہلکاروں کو کرپشن پر معطل اور برطرف کرتے رہے۔ لاہور میں لگ بھگ دو ماہ سے سی ٹی او ہیں۔ میں نے ایک نشست میں ان سے پوچھا’’ آپ نے اب تک نوے وارڈنز کو ملازمت سے برطرف کر دیا ہے ، کیا یہ ظلم نہیں ؟‘‘
جواب ملا ’’نہیں ، ابھی تک صرف تیس وارڈنز کو نکالا ہے کیونکہ ان کی کرپشن کے واضح ثبوت مجھے مل گئے تھے ‘‘ کہنے لگے ’’کوئی ایک روپے کی کرپشن بھی کرے گا تو کاروائی کروں گا‘‘
بہرحال میں یہ سمجھتا ہوں کہ وارڈنز اور پولیس اہلکاروں کی وردی میں کیمرہ بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ جو بھی کارروائی ہو وہ ریکارڈ کا حصہ بنے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ کوئی وارڈن ہیلمٹ نہ پہنے تو اس کا بھی چالان ہو ، صحافی نہ پہنے تو وہ بھی جرمانہ بھرے۔ ایسے وارڈن یا صحافی کی ویڈیو یا قانون شکنی کو پوری کمیونٹی سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ جس نے جرم کیا ہے وہی ذمہ دار ہے۔ ہیلمٹ کا بنیادی مقصد ہماری اپنی جان کو محفوظ بنانا ہے کیونکہ حادثات میں زیادہ تر اموات سر پر لگنے والی چوٹ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ویڈیو ، ویڈیو کا یہ کھیل اب بند ہونا چاہیے ۔البتہ ریکارڈ کا حصہ بنانے اور بوقت ضرورت متعلقہ اتھارٹی کے سامنے حقائق واضح کرنے کے لیے دونوں جانب سے ویڈیو بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن عوامی سطح پر تذلیل کی حوصلہ شکنی ضروری ہے کیونکہ یہاں ہر شخص اپنے خاندان اور دوستوں میں معزز ہے۔ قانون پسند شہری کے طور پر ریاست میں قانون کی حکمرانی ہم سب کے لئے ہے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔