دیانتدارانہ کارکردگی اور امن و امان کے حالات ضروری
کسی شعبہ زندگی میں تعمیر و ترقی کے لئے آئین و قانون کے تحت نافذ اصول و ضوابط پر عمل کرنا ضروری تقاضا قرار دیا جاتا ہے تاکہ کسی غلط کارروائی سے حتی الوسع اجتناب کر کے دستیاب وسائل سے ممکنہ طور پر بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ یاد رہے کہ بہتر نتائج سے مراد مختلف افراد یا طبقہ فکر کی جانب سے عموماً اپنے مخصوص مقاصد پر محدود رکھنے کا مفہوم لیا جاتا ہے بیشک وہ مروجہ قوانین و ضوابط کے مطابق نہ بھی ہوں جبکہ ایسا انداز فکر و عمل ہرگز درست، جائز نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی ادارہ یا غیر جانبدار سوچ و فکر کے حامل افراد یا جج صاحبان اس معاملہ کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لئے چھان بین کریں تو اس غیر قانونی کارروائی کے واضح ہونے سے اصل حقائق عیاں ہو جاتے ہیں۔ یوں اس انداز کو خلاف قانون ہونے کی بنا پر جاری رکھنے کی بجائے مسترد کرنے کو ترجیح دینا ہی درست لائحہ عمل ہے۔ سرکاری اداروں اور فاضل عدالتوں میں بھی غیر آئینی اور غیر قانونی کارروائیوں کو کسی فریق کی جانب سے چیلنج کرنے پر ضروری انکوائری اور تحقیق سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ سطور بالا کے مختصر تذکرہ سے یہ امر ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کسی اہم قومی صوبائی یا اجتماعی نوعیت کے حامل معاملہ کو سر انجام دینے کی خاطر قبل ازیں اس پہلو پر غور کرنا ضروری ہے کہ اس کی کارکردگی کے کسی مرحلہ پر کوئی غیر قانونی انداز کار اپنانے سے حتی المقدور اجتناب کیا جائے تاکہ آئندہ اس کی کسی ادارے یا اتھارٹی کی جانب سے غیر جانبداری سے جانچ پڑتال کئے جانے پر اس کی سابقہ منصوبہ سازی اور موقع پر عملی کارکردگی ترک یا زمین بوس نہ کرنی پڑے۔ سرکاری اداروں اور فاضل عدالتوں میں ایسے حالات اور واقعات آئے روز قومی اخبارات میں پڑھنے میں آتے ہیں۔ اس طرح متعلقہ افراد یا تنظیموں کو ندامت اور مالی نقصانات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
کسی طبقہ فکر یا عوامی نمائندگی کا رہنما بننے کے لئے انسانی اقدار و صفات پر مبنی خوبیوں کا حاصل ہونا، کسی شخص کے لئے قائدانہ کردار کی انجام دہی کے لئے بہت اہم ضرورت ہے۔ یہ صلاحیت خدا داد ہونے کے ساتھ انسانی زندگی کی تعلیم و تربیت اور تجرباتی کارکردگی کے دوران بھی بہتر کی جا سکتی ہے تاکہ عوام کی بے لوث اور ممکنہ وسائل کی دستیابی کے لحاظ سے خلوص نیت سے مشکلات میں کمی کرنے کی ذمہ داریاں نبھائی جا سکیں، اگر کسی عوامی نمائندے میں انسانی اقدار اور اوصاف کے عوامل موجود نہ ہوں تو اس کی کارکردگی زیادہ تر دکھاوے اور مصنوعی یا جعلی کارروائیوں پر مبنی ہونے کے امکانات ہوتے ہیں، جبکہ عوامی نمائندگی کا کردار ادا کرنے سے قبل اس شخص یا خاتون میں ایک مخلص اور با کردار انسان ہونے کی ضروری خوبیوں سے آگاہ ہونا موجودہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا انسانی صفات رکھنے والا شخص یا خاتون ہی صحیح طور پر عوامی خدمت کی کارکردگی سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر ایسے امور کے دوران بسا اوقات محض رسمی کارروائی سے ہی کام چلانے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
اگر یہاں انتخابی امیدوار اور منتخب نمائندے قبل ازیں معاشرے کے مہذب، دیانتدار اور محنتی انسان بننے کی صفات پر عمل کرنے کے عادی ہو جائیں تو وہ انتخابی عمل میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے حلقوں کے لوگوں کی خدمت، قدرے بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسی مثبت کارکردگی دکھانے کے لئے انہیں ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و ترقی کے لئے وطن عزیز کے محدود مالی وسائل کو نہایت احتیاط سے خرچ کرنا ہوگا۔
اشیائے ضرورت کی کم قیمتوں پر دستیابی چند سال قبل کی طرح شہروں اور مضافات کی بیشتر سڑکوں کے اہم مقامات پر صبح سے شام تک موبائل دکانوں پر جاری رکھی جائے اس طرح عام لوگ مصنوعی اور خود ساختہ مہنگائی کرنے والے دوکانداروں کی گرانفروشی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے سماج دشمن عناصر کی منفی حرکات، منافع خوری کی روش سے قابل ذکر حد تک نجات پا کر اپنی ضروریات زندگی مناسب نرخوں پر حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ وطن عزیز میں اکثریتی آبادی غریب، مفلس اور کم ذرائع آمدن والے افراد پر مشتمل ہے۔ گزشتہ چند سال کی بے تحاشا گرانفروشی کے رجحان سے ان کے لئے اپنی کمزور و نحیف زندگی کی صحت و تندرستی کا تسلسل برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
کسی ملک کی معاشی ترقی کے لئے وہاں امن و امان کا تسلسل ایک اشد ضرورت ہے تاکہ کاروبار کرنے والے ادارے اپنے مقررہ اوقات کے دوران حسب معمول کام کر سکیں اور ان میں کسی ٹریفک کی بندش اور رکاوٹ کے مسائل سے دو چار نہ ہونا پڑے اگرلوگ سیاسی کشیدگی کی آڑ میں مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور جلوس نکال کر ٹریفک کی آمد و رفت میں خلل ڈالنے پر اصرار کر کے امن و امان کو درہم برہم کرنے کے حالات پیدا کرنے سے باز نہیں آئیں گے تو قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے ان کی جارحانہ سیاسی سرگرمیوں سے عوام کو پریشان کرنے والے حالات اور ماحول کو نقصانات سے دو چار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیونکہ حالیہ انتخابات کے انعقاد کے بعد وہ اپنی شکایات اور انتخابی عذرداریاں، متعلقہ ٹریبونلز اور اعلیٰ عدالتوں میں دائر کر کے وہاں سے فوری اور سماعت کے بعد حتمی ریلیف حاصل کر سکتے ہیں۔