تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 39
چنبل کے جنوبی کنارے پر ’’فلک بارگاہ‘‘ سے پانچ میل دور اورنگزیب کا ہلکا چھوٹا سیاہ مخمل کا سراپردہ خاص کھڑا تھا۔ قناتوں کے حصار میں ہاتھی دانت کے تخت پردہ فولاد کا لباس پہنے پاانداز پر پاؤں رکھے بیٹھا تھا۔ سامنے قالینوں پر وہ سپاہی بیٹھے تھے جنہوں نے اٹھارہ برس تک اورنگزیب کے گھوڑے سے گھوڑا ملا کر تلواریں ہلائی تھیں۔ کابل سے گولکنڈہ تک اس کے قدموں کے لئے اپنے خون سے لال فتوحات کے قالین بچھائے تھے۔ جوانوں نے میدان جنگ میں گھوڑوں پر چڑھ کر تلوارون سے کھیلنے میں بچپن گزارا تھا اور بوڑھوں کے بالوں کی ہرلٹ کسی نہ کسی جنگ کی کڑی دھوپ میں سفید ہوئی تھی۔ حضور میں کھڑے ہوئے خواجہ سراتک ہتھیار بند اور آہن پوش تھے۔ پھر خان خاناں نجابت خاں حاضر ہوا۔ الٹی محراب کے مانند سیاہ داڑھی اور سردہی کی طرح کھڑی ہوئی سیاہ مونچھوں سے ہیبت ٹپک رہی تھی۔ ہر قدم پر اس کے بکتر کی زنجیریں بج اُٹھتیں۔ نیام دامن سے ٹکرا جاتا۔ وہ تخت کے پاس ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کیا خبر ہے؟‘‘
اورنگیزیب نے فوراً سوال کیا
’’عالی جاہ کا اقبال بلند ہو۔ بھکڑ کا زمیندار جے کار سنگھ بندیلہ کہتا ہے کہ یہاں سے چالیس میل دور بہادرپور کے گنجان جنگل میں ایک خفیہ اتار ہے جس کا علم اس علاقے کے عام لوگوں کو بھی نہیں ہے۔ علاقہ دلدل کا ہے پانی کسی جگہ بھی چار فٹ سے اونچا نہیں ہے۔ اگر والا جاہ حکم فرمائیں تو لشکر اتاروں۔‘‘
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اورنگزیب نے تامل کے بعد پھر دریافت کیا۔
’’توپیں، ہاتھی، گھوڑے، رسد؟‘‘
’’ہاتھی تک کشتیوں کے ذریعہ اتارے جاسکتے ہیں۔‘‘
’’چالیس میل۔ اس کی کیا ضمانت ہے کہ جے کارسنگھ ہم کو فریب نہیں دے رہا ہے۔‘‘
’’داراشکوہ سے نفرت کے علاوہ اس کے بوڑھے باپ اور جوان بیٹوں کے سر ہمارے قبضے میں ہیں۔‘‘
اورنگزیب نے پہلی بار اثبات میں سرہلایا۔
’’ہماری گاڑیوں پرکتنی کشتیاں ہیں؟‘‘
’’پچاس بڑی او دو چھوٹی۔‘‘
میر سمان نصرت خاں نے عرض کیا۔
’’ایک روپیہ فی کوس کے حساب سے گاڑی بانوں کو انعام دیا جائے اور کشتیوں کی گاڑیاں بہادر پور کے لئے فوراً روانہ کی جائیں۔‘‘
’’خان دوراں اور کنور رام سنگھ انہیں اور بہادر پور کے دونوں گھاٹوں پر قبضہ کرلیں لیکن اتنی خاموشی کے ساتھ گویا شب خون مارنے جارہے ہوں۔‘‘
’’باقی تیس ہزار سوار اس طرح لشکر گاہ سے نکل کر ہماری رکاب میں حاضر ہوں کہ سلطان محمد مرزا کی نیند میں خلل نہ آئے اور ہم ایک گھڑی بعد سوار ہوجائیں گے۔‘‘
جب تمام امیر سراپردہ خاص سے نکل گئے اور شاہزادہ مغرب کی نماز ک ے لئے اٹھنے والا ہوا تو خان خاناں نجابت خاں نے گزارش کی۔
’’پیرومرشد دو باتیں بندہ درگاہ کی سمجھ میں نہ آسکیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
اورنگزیب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
’’اول یہ کہ جب والا جاہ اورنگ آباد سے برآمد ہوئے تو برہان پور تک ایک منزل پر دس دس دن تک قیام فرما کر وقت گزرجانے دیا اور اب جبکہ لشکر اتنی منزلیں مارکرتھک گیا ہے تو ایک ایک لمحہ قیمتی تصور فرمایا جارہا ہے اوریلغار پر یلغار کا حکم دیا جارہا ہے۔‘‘
اورنگزیب نے تبسم کے ساتھ توقف کیا۔ پھر اس طرح بولا جیسے استاد شاگردوں کو مشکل سبق سمجھاتا ہے۔
’’اس وقت ہم رکاب امیروں پر بھروسہ نہ تھا اور موقع دیا جارہا تھا کہ سوچ لیں اور میدان جنگ میں ساتھ چھوڑنے کی بجائے راستے میں ساتھ چھوڑدیں۔ پھر اس لمبے وقفے میں ہم نے ان کے دل جیتنے کی بھی کوشش کی تھی اور یہ بھی معلوم تھا کہ شجاع کے مقابلے کی طرح کوئی سپہ سالار فوج لے کر نکلے گا۔ ہم اس کے نکلنے کا بھی انتظار کررہے تھے۔ اس لئے ہر کوچ میں تاخیر کی جارہی تھی۔ اب معاملہ برعکس ہے۔ امیر اور سردار آزمائے جاچکے۔ شاہی لشکر کی آخری قسط سامنے آچکی۔ دشمن پر دھرمت کا خوف طاری ہے اور ہمارے لشکر کا دل شیر ہے اس لئے لڑائی میں عجلت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سلیمان شکوہ کا لشکر آنے سے پہلے دارا شکوہ کو تباہ کرنا آئین جنگ کے عین مطابق ہے۔‘‘
اور پہلو بدل لیا۔
***
ابتدائی رات کے ہلکے اندھیرے میں تیس ہزار لشکر ہزارہاکوتل گھوڑوں ،باربردار اونٹوں اور خزانے کی سانڈنیوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہوچکا تھا۔صرف ایک مشعل کی روشنی میں شاہزادہ برآمد ہوا ۔جلو میں خان خاناں نجابت خاں خان جہاں اسلام خاں ،راجہ نرپت سنگھ ،راجہ دھرم دھر اور چپمت رائے بندیلہ وغیرہ چل رہے تھے۔احتیاط کے طور پر سبزہ اور فقرہ گھوڑوں کے پاکھر سے نکلے ہوئے حصوں پر سیاہی مل دی گئی تھی۔کسی کو مشعل جلانے کی اجازت نہ تھی ۔حکم تھا کہ جہاں تک ممکن ہو گھوڑے ڈھپلی بالو میں چلائے جائیں ۔شاہزادے کے سر پر نہ علم کی پر چھا ئیں تھی اور نہ چھتر کا سایہ۔وہ عام سپاہیوں کی طرح گھوڑا اُٹھائے چلا جا رہا تھا۔
بارہ گھنٹوں کی مسلسل اور بھیانک یلغار کے بعد بہادر پور کے جنگلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔چنبل کے دامن میں قدم رکھتے ہی جیکار سنگھ بندیلہ پانچ سو سواروں کے ساتھ سلام کو حاضر ہوا اور خبر دی کہ خان دوران اور کنور پانچ ہزارسواروں کے ساتھ چنبل پار کر چکے ۔باقی لشکر اُتر رہا ہے۔اورنگ زیب نے میر بخشی شیخ میر کی طرف گھوڑا موڑ کر حکم دیا۔
’’راجہ جے کار سنگھ بندیلہ کو بہادر پور راج عطا ہوا ۔دس دس میل تک تمام علاقہ بہادر پور راج میں سامل ہوا ۔دو ہزاری منصب عنایت ہوا ۔دس ہزار شر فیاں بخشی گئیں ۔
میر بخشی نے گھوڑے سے اُتر کر کورنش میں جھکے ہوئے زمیندار کی کمر میں تلوار باندھ دی ۔دوسرے خادم کے ہاتھ سے مندریل لے کر خطاب راجگی کے طور پر پہنا دی اور راجہ کی رہبری میں تمام لشکر گنجان جنگلوں میں کھو گیا ۔
زمین نرم ہونے لگی ۔گھوڑوں کے سم دھنسنے لگے۔بلندیوں سے دریا نظر آنے لگا ۔گرم ترین دنوں کی گرد تر دوپہر تپنے لگی ۔تب اور نگ زیب نے امراء کی گزارش پر آرام کا حکم دیا جو سر گوشیوں کے ذریعے لشکر میں پہنچا یا گیا ۔نقارے اور طبل ساتھ ہی نہیں لائے گئے تھے۔
حاجب او رنقیب تک معطل تھے ۔کسی کو زور سے بولنے کیاجازت نہ تھی۔جب شاہزادے نے اپنے گھوڑے کی پاکھر پر بیٹھ کر خود اُتارا تو ایک خادم پنکھا لے کر کھڑا ہو گیا لیکن ابرو کے اشارے نے ہٹا دیا اور ااس نے عام سپاہیوں کے ساتھ تھوڑے سے خشک میوے چبا کر راجہ جیکار سنگھ کا لایا ہوا پانی پیا ۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں