تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 40
ظہر کی نما ز کے بعد دریا پر چڑھائی کی ۔بنفس نفیس گھوڑے سے کود کر دلدل میں پھاند پڑا اور سارا لشکر خان دوراں کے قدموں کے نشانوں پر پاؤں گاڑتا رہتا چل پڑا ۔اوپر سیدھا آفتاب تھا اور نیچے گہرا دلدل اور جسم پر فولاد کا لباس اور سامان ضرورت تھا۔تھوڑی ہی دیر میں قیامت برپا ہوگئی ۔خود شاہزادہ کمر کمر تک دلدل میں دھنس گیا۔میر بخشی اپنے گھوڑے کی لگام چھوڑ کر مدد کے لئے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا تو ڈانٹ دیا گیا ۔اورنگ زیب پیٹ کے بل سیدھا ہو گیا ۔آہستہ آہستہ پاؤں نکالے اور کسی نہ کسی طرح شدید جان لیوا محنت و مشقت کے بعد پولے پولے پاؤں رکھتا آگے بڑ ھنے لگا اور پوری گردن موڑ کر لشکر کو ملا تو گردن گردن تک دلدل میں دھنے ہوئے گھوڑے زبانیں نکالے ابلی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور بے بسی سے پر رہے تھے،آدمی پیاس سے تڑپ رہے تھے ۔پانی کی چھا گلیں دلدل میں دھنس گئی تھیں ۔اشرفیوں اور روپیوں کے اونٹ قہر آسمانی کا شکار ہو کر رہ گئے تھے۔ان کے بلبلانے اور گھوڑوں کے ہنہنانے اور ہاتھیوں کے چبگھاڑنے کے علاوہ کوئی آواز نہ تھی ۔سپاہی مر رہے تھے لیکن اورنگ زیب کے خوف سے چیخ نہ سکتے تھے ،فریاد نہ کر سکتے تھے،مدد کے لئے پکار نہ سکتے تھے،آنکھوں کے سامنے ٹھنڈے پانی اور میٹھے پھلوں سے لدے اونٹ کھڑ ے تھے ،چل رہے تھے ،دھنس رہے تھے لیکن پیاس سے مرتے ہوئے انسان کو ایک قطرہ میسر نہ آسکا تھا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انہی ارادے اور فولادی اعصاب کا اورنگ زیب آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ایک بار اس نے دیکھا کہ داہنے بائیں ،آگے پیچھے ہزار ہا انسان مکڑی کے جال میں پھنسے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں یا مر چکے ہیں ۔اس نے اپنے آپ کو تھوڑا سا موڑ کر لشکر کو حوصلہ دیا ۔
’’دلاور ! اگر ہم صحیح وسلامت واپس ہو سکتے تو واپس ہوجاتے لیکن اب پیچھے قدم ہٹانا آگے بڑھنے سے کہیں خطرناک ہے،اس لئے خدائے بزرگ و برتر کانام لے کر یلغار کرو ۔چنبل کی فتح نصف جنگ کی فتح ہے۔‘‘
پھر میلوں تک چنبل کا میلہ گدلا پانی انسانوں اور جانور سے بھر گیا ۔اورنگ زیب دریا میں کھڑا رہا ۔خدمت گزار اس کا بکتر دھوتے رہے ۔خان دوراں اور کنور رام سنگھ سلام کو حاضر ہوئے اور لشکر کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ پانچ ہزار جانیں ہزار ہا سواریاں اور لاکھوں کا سامان چنبل کی بھینٹ چڑھ گیا۔ہر چند کہ سوار اور گھوڑے شدائد سے چو ر تھے لیکن دریا کے مشرق میں بڑھ کر بلند اور محفوظ مقامات پر قبضہ کر لیا ۔کشتیوں سے لدی گاڑیاں جو چیونٹی کی قطاروں کی طرح رینگتی نظرآرہی تھیں ،نئے حاصل کئے ہوئے بہتر کناروں پر لگا دی گئیں ۔شاہزادہ مراد سے درخواست کی گئی کہ باقی لشکر اور تمام ساز وسامان اور توپ خانے کے ساتھ اٹھے اور کشتیوں کے ذریعہ دریا پار کر کے آملے اور خواجہ دراجہ جے کار کے خیموں میں جو کمار رام سنگھ کی نگرانی میں آراستہ کئے گئے تھے،آرام کیلئے داخل ہوا۔
اکبر آباد سے آنے والی سڑک پر رو پہلی پاکھریں،نفرتی جھانجھیں،زریں ہمیلں،گردنیاں اور گھنگھرو پہنے عربی سانڈنیوں کا ایک دستہ اپنے پیچھے دھول کے بادل اڑاتا ہوا نظر آیا۔بارگاہِ دارا کی روکا کے سامنے اتر پڑا۔اخلاص خاں نے مصلح اور مقرب خواجہ سراؤں کا استقبال اور حکم دیا کہ پھلوں اور شربتوں سے تواضع کی جائے ۔
میلوں تک کا علاقہ لشکر گاہ کی روشنیوں سے جگمکا اٹھا تھا ،’’فلک بارگاہِ‘‘ روشنیوں کے لباس پر فانوس کے جواہرات پہنے کھڑی تھی۔اندرونی درجوں کے سامنے چھڑکاؤکئے مسطح صحن میں چاندنیوں پر زردوزی قالین آراستہ تھے۔قلب میں سرخ نمگیرے کے نیچے سونے کے تخت پر اونچے تکیوں سے پشت لگائے درازانواں بیٹھا تھا۔زرکا چھت میں فانوس روشن تھا جسکی روشنی میں دارا ایک خط پڑا تھا ۔خواجہ سراؤں کی ایک قطار مور کے پروں کے فرشی پنکھے ہلا رہی تھی۔سامنے رستم خاں فیروز جنگ اور راؤ چھترسال ہاڑا مودب بیٹھے تھے۔امیر الامراء کی نشست خالی تھی۔سرپوش سے ڈھکا ہوا سنہرا اگلدان ان کی نشست کے سامنے ابھی تک رکھا ہوا تھا۔دارا نے خط کو خریطہ زریں میں ڈال دیا۔ستاروں میں گھوندھی ہوئی بالوں کی لٹ کے مانند جگمگاتی سٹک کی نے اٹھا لی۔فیروز جنگ نے گزارش کی۔
’’سلطان سلیمان اب کتنی دور ہیں صاحب عالم؟‘‘
’’آہ!رستم !تم نے کیا ذکر چھیڑ دیا ۔کیسے کیسے سلیمان ہم نے ایک سلیمان کیلئے کھودیئے۔عمر بھر کے آزمودہ کاررفیقوں،بے جھپک سپاہیوں اور دور اندیش سورماؤں کو اس کے ساتھ کر دیا۔محبت عقل کی دشمن ہوتی ہے۔‘‘
’’صاحب عالم !اتنا افسوس نہ فرمائیں۔سلطان آجائیں گے۔ہم ان کاانتظار کریں گے۔‘‘
’’ہم کو ید ھ میں پہل کرنے کی جلدی کیا ہے۔صاحب عالم!چنبل ہماری تلوار کی چھاؤں میں بہتا ہے۔ایک ایک گھاٹ پرہمارا نیزہ کھڑا ہے اور ہم اپنے گھروں میں براجتے ہیں اورسلطان کی راہ تکتے ہیں‘‘
پھر ہمدم خاں خواجہ سربار یاب ہوا۔گھنٹوں پر گر کر گوش مبارک میں سرگوشی کی۔دارا نے تامل کے بعد پہلو بدل لیا اور دربار برخاست ہو گیا اور شبنم خاں کے ہاتھ سے بادشاہ بیگم ( جہاںآرا) کے خط لیکر پڑھنے لگا۔پڑھتے ہوئے نگاہ اٹھی تو ہمدم خاں کے برابر کھڑے ہوئے خواجہ سراکے داہنے ہاتھ کی انگلی پر جم کر رہ گئی۔جائزہ لیا تو زرہ بکتر میں بھی کمر باریک اور سینہ مردوں سے کہیں بھاری معلوم ہوا۔فورا مخاطب ہوا۔
’’تمہارا نام؟‘‘
خواجہ سرابرق کے مانند تین قدم پیچھے ہٹااور سلام کو جھک گیا۔
’’شبنم خاں!‘‘
’’ظلِ جہاں پناہی‘‘
’’اجنبی کا خود اتارلو‘‘
تسلیم میں خم خواجہ سرا کا خود اترتے ہوئے ہی سرخ سوکاف میں بند ھے ہوئے سیاہ ریشمی بالوں کا نقاب ادھر ادھر کر دیا ۔
’’لالہ؟‘‘
’’لالہ رخ۔‘‘
’’لالہ بدن‘‘
لالہ صنعت‘‘
ہرخطاب پر اس نے گردن جھکا کر سلام کیا۔
’’قندھار ۔‘‘
’’قندھار کی یاد گار مہم سے رخصت ہوتے وقت مابدولت نے تمہیں جعفر کے حوالے کر دیا تھا ‘‘
’’میں اس کے بعد پھر کبھی کسی ملاخطے میں نہ آئیں۔‘‘
دارا کی نگاہ نے اس کے تما م بدن کا اطواف کر لیا۔
’’جعفر نے ہماری بخشے ہوئے انعام کا احترام کیا۔تمہیں پھول کی طرح رکھا،خوشبو کی طرح برتا ہے۔‘‘
’’اس طرح روشن ‘‘
’’شاداب‘‘
’’معطر‘‘
’’لیکن اس طرح بھیس بدل کر آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
قبل اسکے کہ لالہ جعفر کی قیام گاہ پر جائے،خلعت ہفت پارچہ معہ رقوم جواہر عطا ہو۔اس نے رنجور دار کو خوش کن لمحوں کی یاد دلا کر مسرور کیا۔
’’جہاں پناہ ‘‘لالہ نے اپنے انداز پر سر رکھ کر گزارش کی۔
’’خاک پا ،صولت جنگ کے حکم کے خلاف حق نمک ادا کرنے درِدولت پر حاضر ہوئی ہے ‘‘
دارہ نے سر جھکا لیا۔سیاہ چنگیزی ابرو ایک دوسرے کے قریب آگئے ۔
’’مابدولت تمہاری سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘‘
مقربین بارگاہ کو حکم عطا ہوا کہ کنیز کی بازیابی عطا ہوا۔
’’خاک پا کی آخری گزارش ہے کہ تخلیے کا حکم صادر فرمایا جائے‘‘
دارا نے نگاہ اٹھائی،لالہ سرو کی طرح سیدھی کھڑی تھی۔گلابی چہرے سے پسینے کے قطرے چمک رہے تھے ۔
’’ہمدم خاں،اس کا بکتر اتارو‘‘
بکتر سے لالہ اس طرح نکلی جسطرح نیام سے صیقل کی ہوئی شمشیر نکلتی ہے
’’تخلیہ ‘‘سفید ریشم کی پشواز اور سفید اطلس کے بدن پا میں لالہ چند گزوں کے فاصلے پر کھڑی چمک رہی تھی۔مہک رہی تھی،عمر اس سے جسم سے خراج لینا بھول گئی ہوتھی۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں