تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 41
وقت کا دھول اڑاتا ہوا کارواں اس کے بدن سے دور دبے پاؤں گزر گیا تھا۔کسی بال پر خاکستر کا ایک ذرہ تک نہ تھا۔کسی عضو پر شکن نہ تھی۔کسی حادثے کا نقش پانہ تھا۔جیسے ابھی ابھی ما ل غنیمت کے اونٹوں سے اتار کر لائی گئی ہو۔پھر ہاتھ باندھ کر معروض ہوئی ۔
سید جعفر صولت جنگ میر آتش شاہزادہ سوم( اورنگ زیب) کا جاسوس ہے۔
جیسے بندوق سے گولی نکلتی ہے ا س طرح لالہ نے ایک ہی سانس میں فقرہ اگل دیا۔دارا نے سر سے پاؤں تک چونک کر اسے دیکھا،پھر اپنے آپکو سنبھالا ۔ایک ایک لفظ پر زور دے کر گرجنے لگا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بے ادب‘‘
’’اپنی بساط کو مت بھول‘‘
خاصان بارگاہ پر ایسے بھیانک الزامات لگانے کی سزا جانتی ہے
موت
ظل جہاں پناہی!بڑی بڑی سزاؤں کی آخری موت
مابدولت تجھے اس وقت تک زندہ رکھیں گے جب تک تو ثبوت دینے سے عاجزنہ ہو جائے
لالہ نے گریبان سے ایک پرچہ نکالا۔کھول کر ہتھیلیوں پر رکھا اور گھٹنوں پر گر کر دست خاص کے سامنے کردیا اور بولی۔
’’حضرت سلامت !شاہزادۂ سوم( اورنگ زیب) کی تحر یر نامبارک سے آشناہوں گے۔
دارا نے کاغذ کا پرزہ پڑھا۔پڑھتا رہا۔حفظ ہو گیا۔پھر کہنیاں زانوں پر ٹیک لیں،
پیشانی ہاتھوں میں چھپا لی۔
بادشاہوں اور امیروں کی صحبت یافتہ کنیز نے موقع و محل دیکھ کر بیان کرنا مشکل شروع کردیا۔ایک ایک تفصیل کے ساتھ قندھار کا پورا ماجرا بیان کر دیا ۔یہ بھی کہ محراب خاں کے تحائف کی نظر میں جعفر نے کسی کی انگوٹھی پیش کی تھی،تھکی ہوئی نڈھال آواز میں دارا نے پوچھا ۔
’’یہ سلسلہ کب سے دراز ہے؟‘‘
قندھار سے صاحب عالم
قندھار سے
جعفر کو ابوالہوسی نے غداری پر مجبور کیا اور غداری کی سزا کے خوف نے اسے اور رنگ زیب کی سازش کے دلدل میں دھکیل دیا۔
’’دولت پناہ اگر وقت عطا فرمائیں تو اس دعویٰ کی دلیل میں بھی خطوط پیش کئے جاسکتے ہیں۔
دار خاموش رہا
کنیز کی نمک حلالی کی گزارش ہے کہ اعلیٰ حضرات امیر الا مراء نواب خلیل اللہ خاں پر اعتماد نہ فرمائیں
کیوں؟
کنیز کوئی ثبوت دینے سے عاجز ہے لیکن یہ علم رکھتی ہے کہ صولت جنگ امیر الامراء کے راز دار ہیں
’’محرم خاں! لالہ کو غسل کرایا جائے۔خلعت پہنائی جائے ‘‘
دارا سی طرح اپنے تحت پر بیٹھا تھا۔ا سی پہلوبیٹھا رہا۔سفری جھاڑوں کی شمعیں تبدیل کر دی گئیں،مرونگ اورکنول جھلملانے لگے۔مدت ہوئی آدھی رات کو گجر بج چکا تھا۔
باہر نر سنگھ رہا تھا۔گھوڑوں کے سموں اور ہتھیاروں کی کھڑ کھڑاہٹ کی تیز آوازیں آرہی تھیں۔ ایک راجہ اس کی بارگاہ کی حفاظت کا فرض انجام دے چکا تھا اور اپنے سواروں کے ساتھ رخصت ہو رہا تھا ۔اب دوسر اراجہ اسکی جگہ تعنیات ہونے والا تھا۔اخلاص خاں نے ڈرتے ڈرتے زمین بوس ہوکر التماس کیا۔
’’حکم ہوا تو خاصہ مبارکہ(کھانا)چنا جائے۔‘‘
’’خواہش نہیں ہے‘‘ناملائم اور بے زارآواز میں جواب عطا ہوا
اور پھر اپنے خیالوں کی دنیا میں چھلا گیا۔جہاں غداریوں کے اژدھے پھنکار رہے تھے۔سازشوں کی سولیوں کا جنگل ہو نگ ہو نک رہا تھا۔چور خنجر آستینوں کے نیام پہنے دلوں میں پیوست ہو جانے کیلئے تڑپ رہے تھے اور ان سب کے پیچھے ایک شخص کھڑا تھا جس کے جسم پر لباس شاہ جہانی تھا۔سر پر عمامہ دینی،با ئیں ہا تھ میں تسبیح تھی اور داہنے ہاتھ میں زندہ خون سے رنگین تلوار
یہ کیا ضروری ہے کہ لالہ سچ بول رہی ہو
کسی نے ا س کے دل سے سوال کیا۔
لیکن یہ خط
اور غضب سے کانپ اٹھا۔تالی بجانے کیلئے زانوں سے اٹھ گئے۔لیکن لالہ طلوع ہو چکی تھی،جیسے آسمان سے زہرہ اترتی ہو ۔سیاہ مہین ریشم کی پشواز سے جھلکتی ہوئی بلندو بالا محرم پر موتیوں کی لڑیاں چمک رہی تھیں۔سیاہ چست پاسجاتے سے جھانگتے ہوئے سفید گول ٹخنوں پر گھنگرو بندھے تھے۔کمر پر مرصع پٹکاکسا تھا۔جس کے دونوں سرے گھٹنوں کے نیچے پڑے تھے۔بازؤں پر الماس کے جوشن،کلائیوں میں جڑاؤ جہانگیر یاں،گلے میں مروارید کا ست لڑا ہار ،آدھے سر پر چھپا ہوا جھومر،پیشانی پر ٹیکا،ایک ایک انگلی انگشتریوں سے آراستہ،کو لہے رپر زور لگا صراحی اور پوش سے ڈھکا ہوازریں طشت سر جھکا ہوا،اس دھج سے وہ آ رہی تھی۔ہر قدم کو ہلکی سی ٹھوکر سے آراستہ کئے سماعت کی گردن میں غنا کے ہار پہناتی ہوئی تھم تھم کر آگے بڑھ رہی تھی۔اس چھت سے تحت کے سامنے لگا دیں اور الٹے قدموں ہٹ گیا۔لالہ نے طشت رکھ دیا۔ہلکے سروں میں گھنگھرو چھیڑتی رہی۔رنگین چٹکی سے سرپوش ہٹا یا۔یشعت کے پیالے کو لبریز کیا۔صراحی رکھ کر اس طرح پیش کیا کہ گویا وہ سا غر نہیں تاج ہندوستان حضور سے گزاررہی ہو۔ساغر قبول کرتے وقت دارا کی نگاہ پشواز سے جھانکتے ہوئے کو لہے پر پڑ گئی اور خیال کے باریاب ہوتے ہی ذہن میں قندھار گھومنے لگا۔ایک ایک واقعہ اس کے حضور سے کورنش ادا کرتاہوا گزرنے لگا اور پھر اس نے وہ دھماکہ سنا جس کی بازگشت سے خون میں آگ لگ گئی اور دونوں ہاتھ بے ساختہ مل گئے اور جواجہ سراؤں کی قطار ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی
’’رستم خاں اور چھتر سال کو حاضر کیا جائے ‘‘
اب لالہ ہلکورے لینے لگی تھی،قندھار کی لالہ کا بھر پور اور شاداب جسم اور پختہ اور شاداب ہو گیا تھا جس کے فراز اور بلند ہو گئے تھے لذت پُر صیقل ہو گئی تھی۔چہرے پر کمال فن کی تابانی آگئی تھی۔آنکھیں اعتماد کے غرور سے اور روشن ہو گئی تھی پھر نقیب کی آواز بلند ہوئی ،لالہ الٹے قدموں چلتی ہوئی پردوں میں غائب ہو گئی۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 42پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں