تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 42
راؤ چھتر سال کورنش ادا کر رہا تھا۔سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق کمر پر سامنے جڑاؤ کھپوہ جڑا ہو تھا اور بائیں پہلو میں دو تلواریں جھوم رہی تھیں۔ہاتھ کے اشارے پر تخت کے نزدیک کھڑا ہو گیا ور دارا کے تیور دیکھنے لگا،منہ سے ایک لفظ ارشاد کئے بغیر دارانے اسے وہ خط دے دیا جو لالہ نے پیش کیا تھا ۔راؤ نے سر پر رکھااور پھر سنا
’’اٹھارہ برس کی بے محابا عنایتوں کا یہ وہ پھل ہے جو خاص ہماری قاب میں چناگیا ہے‘‘
پھر نقیب نے رستم خاں فیروز جنگ کی آمد کا اعلان کیا۔
نیز ے کی طرح بلند محراب کے مانند بھاری جسم کا خان زرگار چہار آئینہ پہنے خود میں پکھراج کی لمبی کلغی لگائے تسلیم کو جھکا ہو اتھا۔دارا نے نگاہ اٹھا ئے بغیر حکم دیا۔خان کو خط دے دیا جائے ۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خان نے خط پڑھ کر ولی عہد کا چہرہ پڑھا۔راؤ کی حاضری کے مطلب پرغور کیا اور سنگین دیو کے مانند خاموش کھڑا ہو گیا۔
کوئی گھڑئی گزرتی ہے کہ یہ خبر پیش کی جائے کہ ہماری لخت جگر سلطان سلیمان نے بدولت سے غداری کی اور لشکر شاہی کے ساتھ شجاع سے مل گیا۔‘‘
’’صاحب عالم ایک برق انداز خاں کی غداری پر اتنا ملال نہ فرمائیں۔رکاب عالی کے ہزارہا بندگان دولت ایک جنبش ابرو پر جانیں قربان کر دینے پر حاضر ہیں۔‘‘خان نے تسلی دی۔
’’یہ بھی مہابلی کا اقبال ہے کہ یدھ چھڑنے سے پہلے ہی اس کا کالے کرتوتوں کا پتہ چل گیا ‘‘
بارگاہ کے باہر بہت سے گھوڑوں کے سموں اور ہتھیاروں کی نا وقت آوازیں بلند ہوئیں اور دارا کی سماعت متوجہ ہو گئی۔پھر نقیب نے اعلان کیا۔
’’امیر الا مراء وزیر الملک نواب خلیل اللہ خاں بہادر سپہ سالار لشکر شاہی۔‘‘
’’پیش ہوں ‘‘اور خان کے ہاتھ سے خط لے کر دارا نے اپنی آستین میں رکھ لیا۔
بوڑھا نواب کورنش ادا کر رہا تھا۔دارا نے ٹھنڈے لا تعلق لہجے میں سوال کیا۔
نواب کی نا وقت حاضری اور وہ بھی سواروں کے ساتھ غور طلب ہے
نواب نے سیدھا کھڑا ہو کر کن اکھیوں سے خان اور راؤ کو دیکھا اور جذبات سے عاری بھاری آواز میں بولا۔
’’جو خبر میں لایا ہوں اسکی اہمیت کا تقاضا تھا کہ نمک خوار دولت ہتھیار پہن کر اور خاصے کے سواروں کو رکاب میں لے کر حاضر ہو۔تاکہ حکم عالی کی تعمیل میں وقت ضائع نہ ہو۔‘‘
’’خبر بیان کی جائے‘‘
دارا نے نواب کی خطابت سے بالکل بے نیاز ہو کر حکم دیا۔نواب نے خالص قاصدوں کے سے لہجے میں گوش گزار کیا۔
’’دشمن نے چنبل عبور کیا۔‘‘
’’کیسے،یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘
’’خادم بارگاہ کے ذاتی قراول خبر لائے ہیں کہ بہادر پور کے زمیندار جیکار سنگھ نے رہبری کی ہے اور یہاں سے چالیس پچاس میل دور کسی خفیہ گھاٹ سے لشکر اتاردیا ہے۔‘‘
دارا جو تخت پر کھڑا ہو چکا تھا۔خواجہ سراؤں کی قطاروں کی طرف دیکھ کر تنک لہجے میں بولا۔
’’برق انداز خاں۔‘‘
’’برق انداز خاں کو حاضر کیا جائے۔‘‘
قلعہ اکبر کی مغرورفیصلوں پر لہراتے ہوئے شاہ جہانی نشانوں کی جلیل پر چھائیوں کی بوڑھی جمنا بوسہ تسلیم دیتی گزرتی تھی اور مودب لہریں روضہ مبارکہ(تاج محل) کا پاؤں دھلاتی جب آٹھ میل کا سفر طے کر لیتیں تو عماد پور کی جہاں گیری شکار گاہ اپنے محل دو محلوں اور درندوں چرندوں کو رکاب میں لئے اشنان کی کھڑی ملتی۔اسی عماد پور کی سرخ شاہی عمارتوں اور سر سبز محفوظ زمینوں کے پیچھے ایک گاؤں آباد تھا۔تاریخ جب کسی فرد پر مہربان ہوتی ہے تو اپنے آتش گھوڑوں کی لگام اس کے خاکی ہاتھوں میں سونپ دیتی ہے اور جب کسی آبادی کی کوئی ادابھا جاتی ہے تو اسے دائمی شہرت کا خلعت پہنا دیتی ہے اس گمنام گاؤں کی میلی کچیلی پیشانی پر بھی تاریخ نے اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور سامو گڑھ کا نام ہندوستان کی تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔
’’ساموگڑھ؟‘‘
سامو گڑھ کے سینے پر وہ میزان نصب ہوئی جس کے ایک پلڑے میں روایت تھی اور دوسرے میں تجربہ تھا،ایک میں عقل تھی،دوسرے میں دل،ایک طرف سیاست تھی،دوسری طرف ایک محبت،ایک طرف فلسفہ و حکمت تو دوسری طرف شعروادب اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک تلوار تھی اور دوسری طرف قلم اور یہاں بھی تلوار سے قلم ہو نا تھا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں