بھٹو ایک عہد ساز شخصیت!

   بھٹو ایک عہد ساز شخصیت!
   بھٹو ایک عہد ساز شخصیت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج (جمعہ) اپریل کا چوتھا روز ہے، پیپلزپارٹی کے جیالے، جیالیاں اور بھٹو کے چاہنے والے گڑھی خدا بخش کی طرف رواں دواں ہیں، سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ہے کہ اسی روز 1979ء میں ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور ان کی میت کو سخت نگرانی میں بھیجا گیا۔ ہیلی کاپٹر سے میت سیدھے قبرستان لائی گئی اور وہاں چند افراد نے انچارج بریگیڈیئر (ر) سلیم کے تعاون سے نیا غسل اور کفن دے کر درجن، ڈیڑھ درجن افراد نے دعائے مغفرت کی اور نماز پڑھانے کے بعد تدفین کر دی گئی۔ آج اس کچے قبرستان کی جگہ ایک عظیم الشان مقبرہ بن چکا کہ بھٹو کے بعد ان کے دونوں صاحبزادگان میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی یہیں مدفون  ہوئے جبکہ ان کی والدہ اور بڑی بہن محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی یہی مٹی نصیب ہوئی اور یوں ماسوا صنم بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کا سارا خاندان (اہل خانہ) یہاں قیام پذیر ہو گئے اور اب یہ مقام مقبرہ شہداء کہلا رہا ہے، جہاں ہر سال 4اپریل اور 27دسمبر کو بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں اور اللہ کے حضور حاضر ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ سندھ ہو یا ہمارا کوئی اور صوبہ پاکستانی روحانیت کے زیادہ قائل ہیں خصوصاً دیہی علاقوں کے لوگ کچھ زیادہ ہی عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یوں ایک خاندان کے وہ افراد جن کی اموات سیاسی پس منظر اور مظہر نامے کے ساتھ ہوئیں، آج وہ روحانی اور بزرگ حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ سندھ کے باسی سال بھر یہاں آتے، دعائیں کرتے، حتیٰ کہ منتیں بھی مان کر جاتے ہیں اور یوں لاڑکانہ سے دور، غیر معروف قبرستان بھٹوز کے حوالے سے تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکا ہے۔

مجھے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کے دوران جنرل ایوب کے دور سے فرائض انجام دینا پڑے اور اسی حوالے سے کئی ادوار کا مشاہدہ بھی ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیڈی پتلون سے ہم نوجوانوں کی پسندیدگی شروع ہوئی جو بعد میں ان کی وزارت خارجہ، پیپلزپارٹی کے قیام،70کے انتخابات سقوط ڈھاکہ کے صدمے سمیت بھٹو اور ان کے بعد کے وزراء اعظم اور حالات کی کوریج بھی کی  اور یوں آج گزرے حالات ایک فلم کی طرح آنکھوں سے گزر رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی مسکراہٹ، انداز بیان اور ان کے حالات بھی یاد  آ رہے ہیں جبکہ بے نظیر بھٹو اور ان کے دونوں صاحبزادوں کی غیر فطری اموات کے منظر بھی تصویر کی مانند سامنے ہیں، پھر مجھے اقتدار و زوال کے منظر بھی یاد ہیں، یوں یہ دن (4اپریل) بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

آج گڑھی خدا بخش کے میدان میں ایک بڑا جلسہ ہوگا، اکابرین کے علاوہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی خطاب کریں گے، محترمہ کی شہادت کے بعد شاید برسی کا یہ پہلا اجتماع ہو گا جس میں صدر پاکستان اور پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کے صدر آصف علی زرداری موجود نہیں ہوں گے کہ 27دسمبر والے سانحہ کے بعد سے وہ ہر موقع پر خود موجود رہے، تاہم اب علالت  کے باعث کراچی میں زیر علاج ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے، چنانچہ بلاول بھٹو اور پارٹی کے دوسرے رہنماؤں کو موقع ملا ہے۔ حالات حاضرہ کے تناظر میں موجودہ عہد اور بھٹو کا موازنہ کیا جائے گا۔

کہتے ہیں، انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور ہر بڑا آدمی بھی اس سے مبرا نہیں، ذوالفقار علی بھٹو بھی کسی تخصیص کے حامل نہیں تاہم ان کی غلطیاں ان کے بڑے کارناموں کے سامنے بہت حقیر ہیں، یہ اپنی جگہ کہ جہاں ان کے چاہنے والے اب تک یاد رکھے ہوئے ہیں، وہاں ان کا مخالف کیمپ آج بھی کیڑے نکال رہا ہے، موجودہ دور کی حکومت معاشی بحالی کے لئے سرتوڑ کوشش کررہی ہے لیکن اب تک معیشت پوری طرح نہیں سنبھلی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی جرنیلوں نے بیرون ملک سے بلا کر اقتدار سونپا تو ملک ابتر ترین حالات میں تھا، 94 ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل بھارت کے قبضے میں تھے، اس وقت انہوں نے نہ صرف ملکی معیشت کو پٹڑی پر ڈالا بلکہ بھارت سے جنگی قیدی اور زیر قبضہ علاقے بھی واگزار کرائے معیشت کے اعتبار سے شہری مطمئن ہو گئے اور پھر اس دور میں ہی مشرق وسطی میں روزگار کے دروازے کھلے۔ آج جو زرمبادلہ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں، یہ بھی انہی کی کاوشوں سے ممکن ہوا تھا کہ اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر بڑے ہی اہم فیصلے کرائے گئے انہی میں یہ روزگار کا مسئلہ بھی تھا میں ایک آدھ بار پہلے بھی عرض کر چکا کہ امریکہ کے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تو وہ قابل گردن زدنی تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا یہ ”جرم“ بھی تھا کہ انہوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر تیسری کے ساتھ ایک چوتھی دنیا کے تصور کو بھی عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ منظور کرایا، شاہ فیصل، کرنل قذافی، یاسر عرفات، صدام حسین،جمال عبدالناصر اور دیگر اکابرین سے یہ طے کرالیا کہ پاکستان افرادی قوت کے ساتھ ساتھ ہنرمندوں کا بھی حامل ہے جبکہ اسلامی ممالک صاحب ثروت ہیں، لہٰذا پاکستان پر بھروسہ کیا جائے، انشاء اللہ اسلامی دنیا ترقی کرے گی۔ یہ امر سامراجی قوتوں کو کیسے منظور ہو سکتا تھا چنانچہ شاہ فیصل،جمال عبدالناصراور کرنل قذافی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسی حوالے سے بھٹو کو درگور کیا گیا او ریہ کارنامہ ہمارے ہی ایک جنرل نے انجام دیا جو نیچے سے ترقی دے کر اوپر لایا گیا۔ تاریخ شاہد اور لوگوں کو تحقیق کرنا چاہیے کہ بھٹو کے جرائم نہیں، ان کی ترقی پسندی اور حب الوطنی ان کی موت کا سبب بنی۔

بھٹو کی بڑی غلطیوں میں صنعتوں کا قومی تحویل میں لیا جانا قرار دیا جاتا ہے اور یہ بات تو خود ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بھی بالواسطہ تسلیم کی اور قومی ملکیت کی جگہ پبلک، پرائیویٹ سیکٹر کی ترجیح کا ذکر کیا، عملی حوالے سے بھی اس اقدام کو غلطی ہی شما رکیا جاتا ہے لیکن اس کے بارے میں حقائق قدرے مختلف بھی ہیں، قومی ملکیت والا کارنامہ ڈاکٹر مبشر حسن (مرحوم) نے سرانجام دیا، اس میں غلطی یہ تھی کہ کارکنوں کی تربیت اور موثر انتظام کے بغیر یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا کہ کارکن خود ہی غلط راہوں پر چل پڑے۔ ابتدا خوشگوار تھی اور پہلے سے کہیں زیادہ منافع حاصل کیا گیا، تاہم جونہی ذمہ دار کارکنوں کو یہ علم ہوا کہ نجی مالکان نے بہت سا میٹریل کسی کھاتے کے اندراج کے بغیر رکھا ہوا ہے تو پہلے اس پر ہاتھ صاف کیا گیا اور پھر آپس میں انتظامی کنٹرول پر اختلافات ہوئے اور کرپشن ہوئی، پیداوار بھی متاثر  ہو گئی، سیاسی لحاظ سے ان پر دلائی کیمپ کا الزام بھی ہے جو ایک حد تک درست ہے لیکن ذرا غور فرمائیں تو پتہ چل جائے گاکہ ملک غلام مصطفی کھر، افتخار احمد تاری اور دیگر احباب پھر سے جماعت میں واپس آ گئے تھے۔

بھٹو دور اور موجودہ حالات میں ایک بڑی مماثلت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد بن گیا، انہوں نے انتظامی اقدامات کا سہارا لیا، نظر بندیاں کی گئیں، بغاوت کے مقدمات بنائے گئے تاہم اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا اور خود ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے رویے پر نظرثانی کرکے سردار عبدالقیوم خان (مرحوم) کو نظر بندی سے نکال کر سفارت کاری پر مامور کیا گیا اور ان کی کوشش سے حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے تھے اور ان مذاکرات میں مثبت نتیجہ سامنے آنے والا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے یہ عمل ہی پورا نہ ہونے دیا اور اب سے 46سال قبل ان کا ”عدالتی قتل“ بھی کروایا گیا۔

مزید :

رائے -کالم -