جیتنا شروع ہو ئے تو جیتتے ہی چلے گئے بس ”جھاکا“ اترنے کی دیر تھی، کرکٹ سے جڑی یادوں کا حسین میلہ ہے، دن میں میچ کھیلتے  رات کو شرارتیں کرتے 

جیتنا شروع ہو ئے تو جیتتے ہی چلے گئے بس ”جھاکا“ اترنے کی دیر تھی، کرکٹ سے جڑی ...
جیتنا شروع ہو ئے تو جیتتے ہی چلے گئے بس ”جھاکا“ اترنے کی دیر تھی، کرکٹ سے جڑی یادوں کا حسین میلہ ہے، دن میں میچ کھیلتے  رات کو شرارتیں کرتے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:129
ماڈل ٹاؤن کلب کے کپتان نواب منصور حیات بھی ایک ایٹم تھے۔ بہت اچھے لیفٹ آرم میڈیم فاسٹ باؤلر۔ ان سے میچ کھیلتے کیفیت ایسی ہوتی تھی جیسے آج کا پاک بھارت میچ۔ ہم بچے تھے اور یہ جوان سمجھ دار تجربہ کار۔ اکثر ان کی جیت ہمارا جوش چار گنا بڑھا جاتی تھی اور پھر جب ہم جیتنا شروع ہو ئے تو جیتتے ہی چلے گئے تھے۔ بس ”جھاکا“ اترنے کی دیر تھی۔بعد میں ان کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات رہے اور ہمارے لئے یہ منصور بھائی بن گئے۔ شعیب ڈار ماڈل ٹاؤن گرینز کے کپتان تھے۔ یہ نیا کلب تھا۔ ان سے بھی زور دار میچز ہوتے۔ یہ کلب ترقی کرکے کرکٹ اکیڈمی بن گیا۔اسے اس مقام تک لانے میں شعیب ڈار کی لگن کا کمال ہے۔پاکستان کے سابق کپتان سلیمان بٹ کا تعلق بھی اسی کلب سے تھا۔
 کرنل شیر خاں معموریل کرکٹ ٹورنامنٹ؛
خرم کا کالج کا دوست چوہدری نبیل عرصہ دراز ہوئے امریکہ جا بسا۔ اللہ نے مہربانی کی اور اس کا شمار امریکہ کے  والے لوگوں میں ہو نے لگا۔ وہ اپنے والد ”کرنل شیر خاں“ کے نام سے میموریل کرکٹ ٹورنامنٹ کراتا ہے۔جس کے لئے خطیر بجٹ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس ٹو رنامنٹ کے میچز براہ راست امریکہ ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں۔ کلب لیول پر ایسا ٹورنامنٹ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ تمام ٹیموں کو کلر کٹس مہیا کی جاتی ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کو شیخو بابا ہی organiseکرتا ہے جبکہ نعیم چوہدری(بھابٹرہ) اور شعیب ڈار معاونت کرتے ہیں۔ماضی کے یہ نامور کرکٹر اب نونہالوں کی حوصلہ افزائی کے لئے دن رات ایک کئے ہیں۔
چوہدری نعیم بھابڑہ؛
چوہدری نعیم بنیادی طور پر خرم کا کالج فیلو تھا پھر مجھ سے بھی دوستی ہوگئی۔ بہت سال پہلے نیو یارک امریکہ گیا اور وہاں بھی اپنا ڈیرہ آ باد کر لیا جہاں ہر وقت پاکستان سے آئے پندرہ بیس لڑکے جمع رہتے اور انہیں کوئی روز گار ملنے تک کھانا اور رہائش چوہدری نعیم ہی فراہم کرتا تھا۔ نوکری نہ ملنے تک کچگ ڈالر خرچہ بھی ان مہمانوں کو دیتا گو وہ یہ روز گار ملنے پر لوٹا دیتے تھے۔ گورے حیران تھے کہ کس طرح یہ شخص ان لوگوں کا خیال کرتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے پاکستانی جہاں ں بھی ہوں رنگ جما ہی لیتے ہیں۔ خرم بھی جب امریکہ گیا تو اسی کا مہمان بنا۔اپنے والد کی وفات کے بعد وہ لاہور واپس آ گیا اور پھر گھریلو مسائل نے اسے واپس نہ جانے دیا۔اس بھی رابطہ ہے۔
اعجاز بھائی کی میزبانی؛
 کر کٹ سنٹر گراؤنڈ سے جڑی یادوں کا حسین میلہ بہت لمبا اور گہرا ہے۔ 1980ء میں نوشہرہ کا ٹور بھی یاد آ گیا جب دن میں میچ کھیلتے تھے اور رات کو شرارتیں کرتے تھے۔ دو راتیں سوئے نہیں تھے۔ اس یادگار دورہ کا انتظام ابرار بھائی کے بہنوئی اعجاز بھائی(جو کنٹونمنٹ افسر نوشہرہ تھے) نے کیا تھا۔ شاندار میزبانی کی گئی۔دو میچ کھیلے۔ دونوں ہم نے جیتے۔ شراتیں بھی خوب کیں۔عظمت بھائی کی کار پنکچر ہوئی یا کی گئی، یہ معمہ تھا اور آج بھی معمہ ہے۔عارف بھائی کو کیسے ننگا کیا اور پھر جان کیسے بچی۔شیخو(خرم) نے مجھے تمباکو والا پان کھلایا۔آغا سعید کی ٹوتھ پیسٹ سے مالش کیسے ہوئی۔ اعجاز بھائی کے دوست نے کیا شاندار، پر تکلف اورلذیز ڈنر کا اہتمام کیا تھاکہ 5دہائیوں بعد بھی  یاد کر کے منہ میں پانی بھر آ یا ہے۔ شاید اس کھانے میں اس پٹھان میزبان کا خلوص سب سے زیادہ تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -