ڈاکٹر محمد نظام الدین
کیتھ رابرٹ مردوخ کا شمار دنیا کے امیر ترین اور بااثر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ مردوخ آسٹریلیا میں پیدا ہوا۔ مگر اس نے آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ میں ایک میڈیا ایمپائر قائم کی۔ دنیا میں جہاں سورج کی روشنی پہنچتی ہے وہاں مردوخ کے کسی میڈیا کی خبر، تصویر یا تبصرہ ضرور پہنچتا ہے۔ رابرٹ مردوخ کی عمر اب 90 سال ہے۔ اس کی دولت کا تخمینہ 21ارب ڈالرسے زائد لگایا جاتا ہے۔ یعنی اس کی دولت دنیا کے بہت سے ممالک کے سالانہ بجٹ سے بھی زائد ہے۔ مردوخ جب اپنی زندگی کے ساتویں عشرے میں تھا تو کسی نے اس سے کہا کہ آپ کو اپنی آٹو بائیو گرافی لکھنی چاہیے۔ اس پر مردوخ نے برجستہ جواب دیا کہ آٹوبائیوگرافری لکھنے کا مطلب ہے کہ میری کہانی ختم ہو گئی ہے جبکہ ابھی تو میری کہانی شروع ہوئی ہے۔ اب 90 سال سے زائد عمر میں بھی مردوخ کو یقین ہے کہ اس کی کہانی ختم نہیں ہوئی اور ابھی اس نے بہت کچھ کرنا ہے۔
گزشتہ دنوں ملتان روڈ پر خلدونیہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ اپلائیڈ سائنس کالج کے افتتاح کے موقع پر ہمیں رابرٹ مردوخ بہت یاد آئے۔ مردوخ کی طرح ڈاکٹر نظام الدین بھی اپنی زندگی کا ایک نیا باب شروع کر رہے ہیں۔ ان کی عمر 70 سال سے زائد ہے۔ مگر ان کے جذبے جوان ہیں۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ڈاکٹر نظام الدین پاکستان کے نظام تعلیم میں ایک نیا انقلاب لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کا کالج جدید تقاضوں کے مطابق مختلف علوم میں عملی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے گا۔ ڈاکٹر نظام الدین کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز بھی دیا ہے۔ اس سے ڈاکٹر نظام صاحب کی عزت میں تو کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا تاہم ستارہ امتیاز کی ضرور عزت افزائی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر نظام الدین نے مشی گن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ عالمی اداروں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پھر وطن کی مٹی کا قرض اتارنے کے لئے پاکستان آ گئے۔ گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو اسے پاکستان کا ایک معتبر تعلیمی ادارہ بنا دیا۔ چند سالوں میں گجرات یونیورسٹی کا شمار پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہونے لگا۔
گجرات یونیورسٹی کی تعمیر میں ڈاکٹر نظام الدین کی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے یہاں بہت سے نئے شعبے قائم کئے۔ ان کا اصل کمال یہ تھا کہ انہوں نے ایسے اساتذہ کو بھی تعلیم اور تحقیق کے عشق میں مبتلا کر دیا جو گھر سے قسم کھا کر نکلتے تھے کہ کام کرنا ان کے لئے حرام ہے۔ڈاکٹر نظام الدین کی تخلیقی انتظامی صلاحیتوں نے گجرات یونیورسٹی کو ٹرانسپورٹ کا ایک منفرد نظام دیا جس کی بدولت جہلم، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین اور دیگر علاقوں سے طلباوطالبات یونیورسٹی آتے ہیں۔ اس یونیورسٹی نے گجرات کے کلچر کو اتنا تبدیل کیا کہ یہاں جرائم کی شرح حیرت انگیز طور پر کم ہو گئی۔ یہاں طالبات کو اپنی صلاحیتیں منوانے کا غیرمعمولی موقع ملا اور اب یہ یونیورسٹی تعلیم اور ریسرچ کی دنیا میں ایک برانڈ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ مختلف اداروں کی سربراہی کے بعد وہ پنجاب ہائیرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین بھی رہے اور انہوں نے پنجاب میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے بے پناہ اصلاحات کیں۔ پاکستان ہائیرایجوکیشن کمیشن وفاقی ادارہ ہے اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ تعلیم کو اتنا پابند سلاسل رکھا جائے کہ سٹوڈنٹس سے تحقیق کا جذبہ ہی ختم ہو جائے۔ یہ ادارہ تعلیم و تحقیق کو فروغ دینے کی بجائے رکاوٹیں ڈالنے والے ایک بیوروکریٹک ادارے کی شہرت حاصل کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ادارے مانیٹرنگ کا کام کرتے ہیں مگر یہ یونیورسٹیوں کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔
ڈاکٹر نظام صاحب بتا رہے تھے کہ وہ اس کالج کو یونیورسٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ یہاں ایسی تعلیم دی جائے جو عملی طور پر کام کرے۔ وہ انڈسٹری کے ساتھ قریبی تعاون حاصل کر کے ایک طرف قومی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف سٹوڈنٹس کو روزگار کی فراہمی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس کالج کے سٹوڈنٹس عملی زندگی کا آغاز ڈگری لینے کے بعد نہیں بلکہ دوران تعلیم ہی کریں گے۔
ڈاکٹر نظام پاکستان کے تعلیمی نظام میں جو خاموش انقلاب لانا چاہتے ہیں اس کی کامیابی میں بہت سے لوگ تشویش سے ملاقات کریں گے۔ مگر ڈاکٹر نظام کو کامیاب ہونے کی عادت ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ان کا یہ ادارہ بھی غیرمعمولی ترقی کرے گا۔ انسان کو کثرت کی خواہش غفلت میں رکھتی ہے حتیٰ کہ وہ قبر تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر ڈاکٹر نظام نے اپنی زندگی بھر کی کمائی اس ادارے میں لگا دی ہے۔ وہ اسے دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتے۔ اس ادارے کی فیس باقی اداروں کی نسبت خاصی کم ہے اور یہ ایک خدمت کرنے کا ادارہ ہو گا۔ دولت بنانا اس کا مقصد نہیں ہے۔ ابتدائی مرحلے میں یہاں چھ ڈگری پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ جن میں بی ایس کمپیوٹر سائنسز،بی بی ایس انگلش، بی ایس اپلائیڈ سائیکولوجی، بیچلر بزنس ایڈمنسٹریشن، ڈاکٹر آف فارمیسی اور ڈاکٹر آف فزیکل تھیراپی شامل ہیں۔ اس ادارے میں کمال کی جدید لیبارٹریز ہیں۔
کالم ختم کرنے سے پہلے ہم ڈاکٹر جام سجاد حسین کو پی ایچ ڈی کرنے پر مبارکباد دیں گے۔ جام سجاد نوجوان ہیں، بہت اچھے استاد اور محقق ہیں۔ لاہور کی علمی تقریبات کے روح رواں ہیں۔ ان میں ماشاء اللہ وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جن کی بنا پر ان کے روشن مستقبل کے متعلق توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ ہماری طرح وہ بھی ڈاکٹر نظام الدین کے نیازمندوں میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر نظام الدین نے پاکستان میں جدید تعلیم کے فروغ کے لئے بے پناہ کام ہی نہیں کیا بلکہ تعلیمی شعبہ کو حقیقی انقلابی اصلاحات سے روشناس بھی کرایا ہے۔ اپنے سٹوڈنٹس اور نیاز مندوں کے لئے وہ غیر معمولی اثاثہ ہیں۔ ان سے ایک مرتبہ تعلق قائم ہو جائے تو پھر اس کو نباہنا خوب جانتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے غیرمعمولی انسان دوست اور حقیقی سکالر کا وجود غنیمت ہے جن کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی ڈگری کو عزت مل رہی ہے۔