”لفظ بولتے ہیں“ تابندہ سلیم

  ”لفظ بولتے ہیں“ تابندہ سلیم
  ”لفظ بولتے ہیں“ تابندہ سلیم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”لفظ بولتے ہیں“ تابندہ سلیم کی کتاب مجھے ملی تو اس کا سرورق دیکھتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ وہ گہری سوچ اور گہری نظر رکھنے والی ایک منجھی ہوئی لکھاری ہیں۔ ان کے کالموں کو پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ تابندہ سلیم نے جو بھی لکھا بڑی ہمت،حوصلے، مشاہدے اور سب سے بڑی بات انتہائی جرأت سے سچ لکھا ہے۔ فن کوئی بھی ہو شخصیت کو خوبصورت بناتا ہے۔آپ اپنے فن میں جس قدر کوتاہ ہوں گے اسی قدر آپ کا فن نکھر کر سامنے آئے گا۔ اس طرح جس طرح صندل کو جتنا زیادہ گِھسا جائے گا اتنی ہی زیادہ خوشبو نکلے گی۔ تابندہ سلیم کی تمام تر خوبیاں مجھ پر اُن کے کالم پڑھنے کے بعد آشکار ہوئیں  وہ انتہائی محنتی، خوش گفتار اور اپنی اقدار اور روایات سے جڑی ہوئی خاتون ہیں۔ وہ آج کل ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن راولپنڈی میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ابتدائی تعلیم آبائی شہر لاہور سے حاصل کی۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش لٹریچر کیا اور 1993ء میں سرکاری ملازمت بطور آرٹیکل رائٹر اختیار کی۔ انہوں نے لکھاری کی حیثیت سے محکمہ اطلاعات اور صحافیوں کے مابین جدید ذرائع کوبھی فروغ دیا۔ انہوں نے اس خوبصورت کتاب ”لفظ بولتے ہیں“ کو اپنی ماں کے نام انتساب کیاہے۔ اس میں تقریباً 44کالم شامل ہیں۔ تمام موضوعات سے لگتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے تمام پہلوؤں پر نظرثانی کی ہے۔ شروع کے نو (9) کالم اسلامی ہیں اور ہر کالم ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔اسلامی کالم لکھنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ تابندہ سلیم صاحبہ نے انتہائی عرق ریزی کے بعد بہت خوب لکھا ہے۔جشنِ آمد رسولؐ اللہ ہی اللہ، ”محرم الحرام میں فلسفہء شہادت کو سمجھنے کی ضرورت“ میں کچھ یوں لکھا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ باطل کو ترک کرکے حق پر ڈٹ جانا چاہیے۔ہمیشہ دینِ حق کا علم بلند کیا جانا چاہیے اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اسی طرح ”قبولیت والی رات“ اس قدر خوبصورت کالم ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اسے پڑھتے ہی جائیں اور اس کا اختتام نہ ہو۔ اس کالم کے چند الفاظ کچھ یوں بولتے ہیں۔

”صاحب مظاہرِ حق کے مطابق یہ وہی رات ہے جس میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جنت  میں درخت لگائے گئے ایک روایت کے مطابق اسی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ اٹھائے گئے اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ رات اپنے آغاز سے صبح صادق تک سراپا سلامتی ہے۔ امام بن جریرطبریؒ نے بعض بزرگوں سے نقل کیا ہے کہ اس رات میں ہرچیز زمین پر جھک کر سجدہ کرتی ہے اور پھر اپنی اصلی حالت میں آجاتی ہے۔

یہ کالم پڑھ کر ان کے دردِ دل کا احساس شدت سے ہوتا ہے جو وہ خاص طور پر کشمیریوں کے لئے رکھتی ہیں۔تابندہ سلیم کی کتاب ”لفظ بولتے ہیں“ کے 9کالم اس قدر معلوماتی ہیں کہ ان کالموں کو میری نظر میں بچوں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ اسی طرح تابندہ سلیم صاحبہ کا کشمیر پر لکھا ایک کالم بعنوان ”کشمیر پاکستان کی شہہ رگ“ اس کا پہرہ بہت غور طلب ہے۔ کچھ یوں لکھا ہے۔

ہندوؤں کی مشہور کتاب ”ارتھ شاستر“ میں ہندو سیاست کی حکمت عملی کابنیادی اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب تم اپنے دشمن کو مارنا چاہو تو اس کے ساتھ دوستی پیدا کرو پھر جب تم اسے مارنے لگو تو اسے گلے لگاؤ اور جب مار چکو تو اس کی لاش  پر آنسو بہاؤ۔ ارتھ شاستر کی انسانیت سوز تعلیمات کے مطابق یوں تو ہندوؤں کی پوری تاریخ فکر و فریب اور دھوکہ دہی کے لاتعداد واقعات سے عبارت دکھائی دیتی ہے لیکن 75برس پہلے 1947ء میں کالی دیوی کے ان پجاریوں نے مسلمانانِ جموں و کشمیر کے خونِ مقدس سے ہولی کھیلنے کے لئے جس عیاری، مکاری  اور سفاکی سے کام لیا اس کی مثال خود ان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

یہ کالم پڑھ کر ان کے دل میں کشمیریوں کا جو درد ہے اس کا احساس ہوتا ہے۔ تابندہ سلیم ایک حساس دل رکھنے والی لکھاری ہیں۔ان کا لکھا ہوا ہر کالم ان کے احساسات کا پتا دیتا ہے۔ ان کے کالم ”پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین“ نے بھی مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ انہوں نے ان معاشی برائیوں کا ذکر کیا جو کبھی ہمارے معاشرے میں نہیں تھیں مگر افسوس  کہ آج کے حالات میں لوگ ان برائیوں میں گِھر چکے ہیں۔ تابندہ نے کچھ یوں لکھا ہے:

ریپ ہمارے معاشرے میں کبھی تھا ہی نہیں یہ سفاکیت انڈیا سے آئی ہے جہاں پر یہ واقعات عام تھے۔ انڈیا نے ثقافتی جنگ جیتنے کے لئے ہماری نوجوان نسل کے اخلاق کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپنا گندا غلیظ کلچر بذریعہ موویز دِکھا دِکھا کر ہماری نوجوان نسل کے کردار کو تباہ کر دیا۔ یوٹیوب، انسٹا گرام، فیس بک، سوشل میڈیا پر اخلاق باختہ چیزیں اور فحش وڈیوز دِکھا دِکھا کر نوجوان نسل مکمل طور پر اپنا اخلاق کھو چکی ہے۔ دن رات اس قسم کی خرافات دیکھ دیکھ کر ان میں حلال اور حرام کی تمیز باقی نہیں رہی۔ تابندہ سلیم نے اس کالم میں معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیوں کی جن وجوہات پر توجہ دلائی ہے وہ سو فیصد درست ہیں اور انہوں نے اس معاشرے کو درست کرنے کے لئے جو تجاویز دی ہیں ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جن میں قرآنی تعلیمات اور تمام سکولوں میں ترجمہ کے ساتھ قرآن کی تعلیم ہے۔

تابندہ سلیم کی یہ کتاب ”لفظ بولتے ہیں“ میں نے ایک ہی رات میں پڑھ ڈالی کیونکہ اسے چھورنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ آپ کی کتاب ایک مکمل نسخہء حیات لگ رہی ہے جسے ہر شخص کو نہ صرف پڑھنا چاہیے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ آپ کے مضامین نہایت جامع اور مفصل ہیں۔ آپ کی تحقیق بتاتی ہے کہ آپ ایک منجھی ہوئی کالم نگار اور لکھاری ہیں۔ آپ نے قومی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر لکھ کر ہماری نئی نسل اور ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مضامین، کالم عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ انتہائی خوش گفتار اور ملنسار شخصیت کی مالک بھی ہیں۔ اس نفسانفسی کے دور میں اپنی تمام ذمہ داریوں کو نبھانا اور پھر تحقیق اور تحریر کا وقت نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اللہ کرے آپ کی انسانیت سے محبت، دردمندی، وطن کے باسیوں کی تڑپ اور اپنی  اقدار و روایات سے آپ کی وابستگی یونہی سلامت رہے اور آپ کی تحریروں  میں مزید نکھار پیدا ہوتا رہے۔ آپ کو اس بہترین کتاب ”لفظ بولتے ہیں“ کی اشاعت پر میری دلی مبارکباد، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ …… آمین

تابندہ سلیم کے لئے

کس طرح بتاؤں میں 

سوچ اک سمندر ہے

بے شمار و بے کنار

حرف حرف موج ہے 

موج موج حرف ہے

لفظ لفظ موتی ہیں 

دور میں کہیں 

شام کے ہنڈولے میں 

یہ خیال کرتی ہوں 

کون تھا جو کہتا تھا

تیرا حرف روشن ہے

اِک چراغ  جیسا ہے

جس کی لو سے روشن ہیں 

اس کی میری راہیں سب

لفظ جو علامت ہے

لفظ جو محبت ہے

ڈاکٹر فورزیہ تبسم

مزید :

رائے -کالم -