”آلہ کار اور اعلیٰ کار“
ہمارے لوگوں کی اکثریت نہایت سادہ دل ہے اور دیہاتی ذہنیت کی حامل ہے۔اپنی سادگی کی وجہ سے ہمارے لوگ آج بھی سرکاری اہلکار کو دیکھ کرڈرجاتے ہیں۔کسی ”آلہ کار“ کو دیکھ کرتوبعض اوقات لوگ باقاعدہ سہم جاتے ہیں اورکسی ”اعلی کار“ کودیکھ کرتو بھی اُن کادل ہولنے اورڈولنے لگتا ہے کہ پتہ نہیں ”کار“میں کوئی اعلیٰ شخصیت بیٹھی ہویاکسی اعلی شخصیت کا کوئی ”آلہ کار“ بیٹھا ہو۔بھلے وقتوں میں انسانی معاشرے ”آلہ کار“ اور”اعلیٰ کار“ دونوں کے بغیر گزارا کررہے تھے اور خوش وخرم تھے۔سادہ زندگی تھی۔نہ کوئی کسی کا ”آلہ کار“ تھااور نہ کسی کے پاس ”اعلیٰ کار“ تھی مگرخوشی ہرانسان کومیسر تھی۔ ہرآدمی اپنے ماضی سے خوش،اپنے حال پر مطمئن اور اپنے مستقبل کے بارے میں پُرامید تھا۔ وقت بدلنا شروع ہوا۔پہلے کاریں آئیں پھر ”اعلیٰ کاریں“ آئیں اوراپنے ساتھ ”آلہ کاروں“کازمانہ لائیں۔”اعلیٰ کار“ کی ہوس میں انسان خود”آلہ کار“ بننے لگ گیا۔انسان جوکبھی اشرف المخلوقات ہوتاتھا،کارجیسے آلات نے اُس کی فطرت بدلنا شروع کر دی۔ کارکامعیارتودن بدن اعلیٰ ہوتا گیامگرانسان اپنے معیاراوروقارسے گرکرفقط ایک ”آلہ کار“بن کے رہ گیا۔وہ ایک کا”آلہ کار“ تھا اورباقیوں کاسردارتھااگرچہ اخلاقاًبے کار تھا۔”اعلیٰ کار“اور”آلہ کار“ کے اس رشتے نے باقی رشتوں کی خوبصورتی کودھندلادیااورانسانی تہذیب کو گہنا دیا۔وہ ٹوٹا ہوا تارا جو ماہ ِکامل بن سکتاتھافقط ایک عامل بن کررہ گیااورعامل بھی وہ جو قطعاً کامل نہیں تھا۔ وہ نقطہ جو اُس کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں ہوناچاہیئے تھاوہی اُس کا محورحیات ٹھہرا۔ اسی ایک رشتے کوثبات ٹھہرااورہرطرف ”آلہ کاروں“ اور ”اعلیٰ کاروں“ کی بہتات ہوتی گئی اس ہجوم میں ابن ِ آدم اور بنت حوا کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہری۔
انسان جو مسجودملائک تھا اور باعث تعظیم خلائق تھا،اپنے رتبے سے دن بدن پستی میں گرنے لگا اور پوری کائنات کوجس کا ”آلہ کار“بنایاگیا تھاوہ خود”آلہ کار“بن کے رہ گیا اوریہ ذلت بھی سہہ گیاکہ خود ”آلہ کار“ کہلانے لگااپنی ہستی کوگہن لگانے لگااورصدافسوس کہ اس تنزلی پراترانے لگا۔پہلے لوگ اول تو کسی کے ”آلہ کار“ہوتے نہیں تھے اوراگرکہیں کوئی اکادکاشخص کسی کا ”آلہ کار“ بن بھی جاتاتھاتووہ اس بات کو تسلیم کرنایااپنی زبان سے کہناپھر بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتاتھا”آلہ کار“ کالفظ ایک گالی کے مترادف تھا،مگر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ہر ”صاحب کار“کے پاس بہت سارے”آلہ کار“ آگئے جوبڑے فخرسے سب کویہ بتانے لگے کہ فلاں بن فلاں کے ”آلہ کار“ ہیں۔ جو بات کبھی باعث ندامت تھی وہی عزت کا معیارٹھہری۔ جیسے جیسے کاربڑی ہوتی گئی ”آلہ کاروں“ کی تعدادبھی بڑھتی گئی اور انسانیت گھٹتی گئی۔کبھی کبھی تویوں لگنے لگتا ہے کہ ہرشخص کسی نہ کسی کا ”آلہ کار“ہے اور ”آلہ کار“ بننے کی بنیادی وجہ اپنی خودی سے انکار ہے۔ پہلے ہمارے مقاصد اعلیٰ ہوتے تھے اورصرف اُن مقاصد کے حصول کے لیے لوگ کبھی کبھی ایک دوسرے کے ”آلہ کار“ بن جاتے تھے۔”آلہ کار“بہت ”پُرکار“اورایک پرکار کی طرح ہوتا ہے جس نے اپنی سرکار کے گرد دائرہ لگایاہوتا ہے۔نہ وہ اس دائرے میں کسی اور کو داخل ہونے دیتا ہے اورنہ خود کبھی اس دائرے سے باہر نکلتاہے۔ بعض اوقات کسی ”آلہ کار“کودیکھ کر الہامی کتاب کی یہ آیت یاد آنے لگتی ہے کہ ”بے شک قادرمطلق نے انسان کو اپنی بہترین تخلیق بنایاہے مگر یہ پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں اپنی مرضی سے، اپنے اعمال کے باعث گر جاتاہے۔بعض اوقات یہی پستی اس کواپنی اوقات لگنے لگتی ہے حالانکہ اس کاوجود توبلندیوں کے لیے تخلیق کیا گیا ہے“۔
خمار گندم انسان کو بہشت سے زمین پرلے آیاتھا اور اب آلہ کاری“ کاخمار اور”اعلیٰ کاروں“ کی ہوس اُس کو پاتال سے بھی نیچے لے کر جارہی ہے۔انسان جس کو خالق کائنات نے بڑے مان اورپیارکے ساتھ اپنا خلیفہ بنایاتھا نہ صرف اپنے جیسے انسانوں کا ”آلہ کار“ بن گیا۔ بلکہ کبھی کبھی تویوں لگتا ہے کہ اب تو مدت ہوئی انسان اپنی ہی بنائی ہوئی چیزوں کا”آلہ کار“بن کے رہ گیا ہے۔ شاعر مشرق نے بالکل ٹھیک پیش گوئی کی تھی کہ ”دل کے لئے مشینوں کی حکومت موت ہے اور احساس مروت کو آلات کچل دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کارویہ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ آلات کے ”آلہ کار“ ہیں۔ ایک شاعرنے اپنا دُکھڑارویاتھاکہ ”زندگی اُس کی تھی، مگر بسرکسی اور نے کی“۔ اب زندگی ہماری ہے مگر بسر آلات کررہے ہیں اوراب ہمارے خیالات کامحور بھی آلات ہی ہیں۔انہوں نے ہماری سوچ کو بھی اپنا ”آلہ کار“ بنالیا ہے۔ زندگی کی معنویت بے کار ہوتی جارہی ہے۔دعا ہے کہ انسان اللہ کاخلیفہ ہی رہے اورباقی سارا جہان اُس کا ”آلہ کار“ ہو۔