چیل گوشت
ہماری بے شمار معاشرتی رسومات کا منبع مذہب، اخلاقیات، ثقافتی تسلسل اور دکھاوا و مروت ہے۔ثقافتی تسلسل میں ہندو اثر، قبائلی روایات، مذہبی تعلیمات اور باہمی مروت شامل ہیں۔ہم بے شمار کام نیکی اور اچھائی کے نام پر اس لئے کرتے چلے جاتے ہیں کہ ان کا تعلق ہماری مذہبی رسومات، ثقافتی روایت سے ہے اور ہمارے بڑے اور سب لوگ کرتے ہیں، ورنہ اگر اجتماعی سطح پر ان کو پرکھا جائے تو معلوم ہوگاکہ اب یہ چیزیں بے شمار معاشرتی قباحتوں کا باعث بن رہی ہیں۔ایسی ہی ایک نیکی کا تصور چیل گوشت کا صدقہ ہے۔ لوگ اپنی بلائیں ٹالنے کے لئے گوشت کے ٹکڑے ویران جگہوں، پارکوں، دریاﺅں اور نہروں کے پاس پھینک دیتے ہیں کہ چیل اور کوے ان کو کھالیں۔پہلے چیلوں اور کووّں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی کہ لوگ اس کا انتظام خود کرتے تھے، چنانچہ اس کے لئے تردد کرنا پڑتا تھا، جبکہ ترقی کے ساتھ ساتھ اس رسم نے کاروبار کو جنم دے ڈالا۔گوشت مہنگا ہونے کی وجہ سے لوگوں نے جانوروں کے پھیپھڑے کا گوشت سستے داموں سڑکوں، پارکوں اور نہروں کے کنارے بیچنا شروع کردیا۔اب یہ نظارہ آپ ہر شہر اور قصبے میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں سائیکلوں، موٹرسائیکلوں اور کاروں والے ایک شخص کے سامنے سر نیچے کئے چیل گوشت کے لفافے سر پر وار رہے ہوتے ہیں، بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ ضرورت مند کے سامنے صدقہ وارنے کے بعد گوشت پرندوں کے آگے پھینک دیتے ہیں اور جب فرصت ہوتی ہے تو اسے دوبارہ اکٹھا کرکے شاپر بیگ میں ڈال کر نئے گاہک کے لئے صدقہ ساشے تیار کرلیتے ہیں۔نیکی اور رسومات کی حد تک تو ایسے صاحبان کا عمل ٹھیک ہے، لیکن اس کے باعث معاشرتی و قومی سطح پر اس کے کیا اثرات ہیں؟اس پر ہم نے کبھی اجتماعی سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا۔پرندوں کے فروغ کی ایک سوسائٹی کے اعدادوشمار کے مطابق صرف لاہور میں درجنوں چھوٹے و خوبصورت پرندے ناپید ہوگئے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ چیل گوشت کا صدقہ ہے، کیونکہ یہ صدقہ صرف چیل اور کوﺅں کی پرورش کرتا ہے ،جن کو گوشت خوری کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ پھر وہ چھوٹے پرندے کو زندہ نہیں چھوڑتے، جبکہ یہی چھوٹے پرندے کسی بھی چمن کا حسن ہوتے ہیں۔آپ کسی بھی پارک اور اچھی جگہ جائیں،وہاں آپ کو کوے تو کائیں کائیں کرتے ملیں گے اور چیلیں چاروں طرف منڈلاتی اونچے ہوا کے مزے لے رہی ہوں گی اور اپنے شکار کو بلندی سے تلاش کرتے ہی اس پر جھپٹ پڑیں گی۔یوں ایک نجی نیکی اور صدقہ ایک معاشرتی قباحت کو جنم دے رہا ہے، بلکہ معاشرتی بدی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ایسا ہی ایک اجتماعی معاشرتی صدقہ ہم دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں اور وہ ہے اپنے ووٹ کا صدقہ۔ ہر بالغ پاکستانی اپنا ووٹ ہمیشہ سے صدقہ کرتا آ رہا ہے۔کبھی نظریات کا صدقہ،کبھی برادری کا صدقہ، کبھی مروتوں کا صدقہ اور کبھی مفادات کا صدقہ اور یہ صدقہ بھی ہم چیل گوشت کی طرح صرف سیاسی چیلوں اور کوﺅں کو دیتے آ رہے ہیں، چنانچہ اب چاروں طرف سیاسی کوﺅں کی کائیں کائیں اور سیاسی چیلوں کی چھینا جھپٹی عام ہے۔اس سے چھوٹے معاشرتی، معاشی و سیاسی پرندے، جو معاشرے و ملک کا حسن تھے اور معاشرتی چمن کی خوبصورتی و نشوونما کا باعث تھے، اب ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اب کوئی محنتی سیاسی کارکن پنپنے سے پہلے ہی ان کا شکار ہوجاتا ہے۔اب جو چند معاشرتی و سیاسی خوبصورت و خوش کن پرندے زندہ ہیں، وہ وہی ہیں جو ان سیاسی چیلوں اور کوﺅں کے بچوں کے ذاتی پنجروں میں بند ان کا دل بہلاتے ہیں۔یہ معاشرتی چیلیں اور کوے اتنے زیادہ اور طاقتور ہوگئے ہیں کہ وہ چمن کے خوبصورت پرندوں کو ناپید کررہے ہیں،بلکہ ان کی چھینا جھپٹی اور کائیں کائیں سے چاروں طرف مایوسی اور بددلی پھیل رہی ہے۔ ان کی چھینا جھپٹی کا شکار ملک کے اثاثے اور مالیاتی نظام بھی ہوتا جارہا ہے۔عوام کے ووٹ کے صدقے انہوں نے ہزاروں سرکاری اداروں کے چمن اجاڑ دیئے اور اب اس ملک کے بڑے بڑے معاشرتی و معاشی چمن، جن میں سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، گیس و پٹرولیم کے ادارے اور اسمبلیاں شامل ہیں ، ان کی زد میں ہیں۔عوام سے درخواست ہے کہ وہ چیل گوشت اور ووٹ کا صدقہ دینے کی رسم نیکی اور مروت کے نام پر کرتے وقت اس فعل کے منفی اثرات پر غور کریں اور اب یہ چیل اور کوے پال مہم کو بند کریں، ورنہ ایک دن چیل اور کوﺅں نے تو مرنا ہی ہے، عوام بھی بے موت مار جائیں گے اور یہ سبق ان کو بے شمار قوموں سے حاصل کرنا چاہیے ،جن میں عراق، افغانستان، نائجیریا، سوڈان، لیبیا اور اب شام شامل ہے،جہاں چیل اور کوے باہم لڑتے مر گئے اور عوام غربت و افلاس اور بے بسی کی زندگی گزارتے زندہ لاشوں کی صورت اختیار کر گئے۔خاکم بدہن! ٭