تتلیوں کا قتل

تتلیوں کا قتل
تتلیوں کا قتل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار شریف آدمی ہیں۔ وضع داری، انکساری اور مروت ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ وہ اتنے ذہین اور دانشمند ہیں کہ عمران خان نہ صرف ان سے خوش ہیں بلکہ ان کے مداح بھی ہیں۔ جب بھی ان کے سیاسی دشمن ان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ پراپیگنڈے کے طوفان اٹھاتے ہیں تو عمران خان ان کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ ان پر غیر معمولی اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ عمران خان عثمان بزدار سے زیادہ شاید کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ حالانکہ عمران خان کے مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ خان صاحب نے کسی پر اعتماد کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ جو لوگ شہبازشریف کی تعریف کرتے ہیں وہ بھی اتفاق کریں گے کہ اگر وہ عمران خان کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو ان کی رفاقت ایک ہفتہ بھی نہ چل پاتی۔ شہبازشریف صرف اپنے بھائی میاں نوازشریف کی سرپرستی میں ہی سیاسی کمالات دکھا سکتے ہیں۔ عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جو مدتوں سے پسماندگی کا شکار ہے۔ ماضی میں اسے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ تخت لاہور پر جنوبی پنجاب کے لوگ بھی حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ مگر وہ اس خطے کو پسماندگی اور جہالت میں رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے ہیں کیونکہ انہیں تعلیم اور ترقی میں اپنا سیاسی اقتدار خطرے میں نظر آتاتھا۔


عثمان بزدار ایک بڑے بلوچ قبیلے کے سردارہیں۔ مگر ان کی سوچ مختلف ہے۔ وہ جنوبی پنجاب کو ترقی دینے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہیں خوشحالی اور روشن خیالی میں اپنے مستقبل کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا مگر ان کے اقدامات سے وہ طاقتور سیاسی لوگ خوفزدہ ہیں جو جہالت اور پسماندگی کو یقینی بنانے کی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ لوگ عثمان بزدار کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے۔ عثمان بزدار کے خلاف ہونے والی اکثر سازشیں جنوبی پنجاب سے ہو رہی ہیں۔ ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ عثمان بزدار کے خلاف سوشل میڈیا پر جو گمراہ کن پراپیگنڈے کئے جا رہے ہیں ان میں سے اکثر کے مراکز جنوبی پنجاب میں ہیں۔ 
حکومت اپنے کام بیوروکریسی سے کراتی ہے۔ ایک طویل عرصے سے بیورو کریسی نے یہ سبق سیکھا ہے کہ حکمرانوں کو باور کرایا جائے کہ ماضی میں سب غلط ہوتا رہا ہے۔ اب وہ ہی صوبے کی تقدیر بدلیں گے۔ میاں شہبازشریف کے زمانے میں وزیر آباد کا دل کا ہسپتال اس لئے مکمل نہیں ہو سکا کہ وہ چوہدری پرویزالٰہی کا منصوبہ تھا۔ اسی طرح گجرات کی سڑکیں چوہدری صاحب سے نفرت کی وجہ سے کھنڈر بنتی رہیں۔ بیوروکریسی کو عوام سے نہیں حکمرانوں سے غرض ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے گزشتہ حکومت کے منصوبوں کو جاری رکھا مگر اس سلسلے میں بیورو کریسی تذبذب کا شکار ہو کر غلط فیصلے کرتی رہی۔ جناب عثمان بزدار نے حکم دیا کہ جنوبی پنجاب کے شہروں کو لاہور جیسا شہر بنا دو۔ جنوبی پنجاب کے شہروں میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ وزیراعلیٰ نے ان کا افتتاح بھی کیا۔ ان منصوبوں کے جائزوں کی خبریں بھی آتی ہیں۔ یوں ایک طرف جہاں جنوبی پنجاب کے شہروں کو لاہور جیسا بنایا جا رہا تھا وہاں کچھ افسران نے لاہور کو جنوبی پنجاب کے شہروں جیسا بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت قائم رہی تو اگلے چند سالوں تک لاہور جنوبی پنجاب جیسا شہر ضرور بن جائے گا۔


لاہور پاکستان کا دل ہے اور یہ صرف اہل لاہور یا اہل پنجاب کا شہر نہیں ہے۔ یہ اس پورے خطے کا نمائندہ تاریخی شہر ہے جو پورے پاکستان کے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے اور انہیں زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ جناب عثمان بزدار کے علم میں یہ تو ہو گا کہ ان کے دور حکومت میں غیر معمولی طور پر ذہین بیورو کریٹوں نے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر بنا دیا اور انہوں نے اس حیثیت کو تبدیل کرنے کے لئے کسی بڑے منصوبے کی تجویز تک پیش نہیں کی اور عالمی ماحولیاتی مسائل کو اس کی وجہ قرار دے کر سوچ کے دروازوں پر ہی تالے لگا دیئے۔
باغ کسی بھی شہر کے پھیپھڑے ہوتے ہیں۔ اگر شہر کی ہوا صاف ہو تو اس کے شہری بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ مغلوں نے ابن عربی کی تصانیف سے جنت کا جو نقشہ تیار کیا تھا اس کے مطابق تاج محل کے باغات تعمیر کرائے۔ اس کے بعد لاہور کے شالامار باغات بھی جنت ارضی بنانے کی خواہش تھے۔ مغلوں کے باغات شاہی خاندان کے لئے تھے۔ عوام کے لئے پارک بنانے کا کام انگریزوں نے کیا۔ لاہور میں اتنے زیادہ باغات تھے کہ اسے باغوں کا شہر کہا جاتا رہا۔ فوجی گورنر جنرل غلام جیلانی کو اہل لاہور محبت اور عقیدت سے یاد کرتے ہیں کہ اس نے لاہور کو متعدد پارکوں کا تحفہ دیا۔


گزشتہ دور حکومت میں پی ایچ اے نے کروڑوں روپے کی لاگت سے جلو میں ایک تتلی گھر پارک بنایا تھا۔ اس میں رنگ برنگی تتلیاں قدرت کے حسن کا شاہکار نظر آتی تھیں۔ شاید عثمان بزدار کو کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ تتلی گھر کی تمام تتلیاں ہلاک ہو چکی ہیں اور ان تتلیوں کا قاتل جناب عثمان بزدار کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے سیاسی انتقام کی ایک بدترین مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پی ایچ اے اچھا کام کرتا رہا ہے مگر اب یہ ادارہ بدانتظامی کی ایک مثال بنتا جا رہا ہے۔ اکثر پارکوں میں صفائی گندگی پھیلانے کے لئے کی جاتی ہے۔ پارکوں کے اکثر ٹائیلٹ اتنے گندے ہیں کہ ان کی بدبو ایکڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ بدبو کے اتنے زبردست مراکز آپ کو جنوبی پنجاب کے کسی شہر میں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ لاہور کے پھیپھڑے پارک اور باغات کینسر اور خطرناک امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ تاہم لاہور کو دنیا کا آلودہ شہر بنانے والے قومی اعزازات کی امید لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ جنوبی پنجاب کے شہروں کو لاہور جیسا نہیں بنایا جا سکا تاہم لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -