دلائی ٹارچر کیمپ سے گونجتی بے بس جمہوریت کی چیخیں (۲)
سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی گسٹاپو فورس ایف ایس ایف کے ٹارچر سیل دلائی کیمپ سے منحرف ہوکر فرار ہونے والے ہیڈکانسٹیبل رشیدالدین کی روح فرسا کہانی کا دوسرا حصہ پیش خدمت ہے ۔رشید الدین کو ایف ایس ایف اور زیڈ اے بھٹو کا اصلی بھیانک روپ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے والا اہم ترین کردار سمجھا جاتا ہے ۔یہ واقعات انکے بیٹے نے لکھے تھے جو یہاں بیان کئے جارہے ہیں ۔
۔۔۔۔
میر ے ابا کے لئے ان ٹارچر سیلوں میں ہونے والی بربریت ناقابل برداشت تھی،اگلی صبح انہوں نے اپنے والد کو ایک خط میں صورت حال سے آگاہ کیا اور اس خط کو کسی طرح خفیہ طریقہ سے پوسٹ کردیا۔چند دنوں بعد انہیں اسکا جواب موصول
ہوا جس میں لکھا تھا ’’ میرے بیٹے میں تمہیں اس جرم کی سیاہی میں ہاتھ منہ رنگتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔ہمارے مذہب میں یہ کام ظلم اور حرام ہے ۔میں نہیں چاہتا کہ تم کسی کو تشدد کا نشانہ بناو ۔ہمیں اس زمین پر دوسروں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا نہ کہ ظلم اور قتل کرنے کے واسطے ۔مجھے یقین ہے کہ اب تم درست فیصلہ کروگے ۔اگر تمہارے لئے یہ ناقابل برداشت ہے تو واپس آجاو ‘‘ لیکن ابا جانتے تھے کہ واپسی کا راستہ بند ہوچکاہے ۔ایف ایس ایف کے ساتھ معاہدہ توڑنا آسان نہیں تھا ،اسے چھوڑنے کی صورت میں یا تو جیل یا اس سے بھی بدترین سزا مقدر بن سکتی تھی۔
ابا نے کیمپ کے اندرخفیہ طور پر قیدیوں کی مدد کرنی شروع کردی ،انہیں سگریٹ اور کھانا دیتے اور بات چیت بھی کرتے رہتے ۔ان وزرا ء میں سے ایک منسٹر نے ابا سے مدد کرنے کی التجا کرتے ہوئے کہا تھا ’’ میرے بیٹے ،خدا کے لئے ہماری مدد کرو،ہمیں بھٹو کی ایڈمنسٹریشن نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے اغوا کیا ہے،ہمارے اہل خانہ اور دوستوں کو بالکل معلوم نہیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔کسی طرح بھی ہوسکے تو ہمارے بارے میں کسی کو اطلاع کردو ‘‘ وہ کئی ماہ تک متواتر میرے ابا سے مدد کے لئے کہتے رہے اور بالاخر ابا نے بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔
ابا نے اپنی نوٹ بک میں ان تمام اغوا کنندگان کے نام لکھے اور یہ بھی رقم کردیا کہ ان کیمپوں میں ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔لیکن کیمپ چھوڑنا اتنا آسان نہیں تھا۔ایمرجنسی نافذ تھی،کسی بھی صورت کسی کو چھٹی نہیں مل سکتی تھی۔ابا نے کئی بہانے بنائے اور کوششیں کیں کہ کسی صورت کیمپ سے باہر نکلنے کا موقع مل سکے ۔انہوں نے کیمپ لیڈر سے بہانہ کیا ’’سر میں شدید بیمار ہو ں ۔مجھے فوری قریبی ہسپتال لے جایا جائے ،میں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں اس حالت میں ۔میں شدید بیمار ہوں سر‘‘لیکن کیمپ لیڈر نے ہمیشہ انکی التجا کو رد کردیا اور کہا کہ ایمرجنسی حالات کی وجہ سے وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے ۔
یہ حالات دیکھ کر ابا نے کیمپ سے فرار کا منصوبہ بنایا۔ ایک رات وہ فرار ہوکر لاہور پہنچ گئے اور ایک سابق گورنر لاہوراور اسکے ایڈوائزر سے ملاقات کی اور انہیں بھٹو کے دلائی کیمپ بارے سب کچھ بتا دیا کہ وہاں کتنے سیاسی رہ نماوں کو قید کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ گورنر کا خیال تھا کہ ان تمام اراکین کو قتل کیا جاچکا ہے ۔اس مرحلہ پر ایف ایس ایف نے میرے ابا کی تلاش شروع کردی تھی لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ فرار کے بعد وہ کیا کام کرنے جارہے ہیں۔
چند دن بعد ابا نے لاہورمیں ایک قانون دان سے ملاقات کی ۔اس قانون دان کے بھائی کو بھی ایف ایس ایف نے دلائی کیمپ میں رکھا ہوا تھا ۔ابا کو امید تھی کہ یہ قانون دان اسکی مدد کرے گا ۔ابا نے اپنی ڈائری لی اور اس قانون دان کو تمام قیدیوں کے بارے میں بتایا۔اس دوران ابا کو ٹوائلٹ میں جانے کی حاجت ہوئی تو وہ ڈائری اٹھانا بھول گئے لیکن باتھ روم میں جاتے ہی انہیں جب ڈائری کا خیال آیا وہ بھاگے ہوئے قانون دان کے کمرے میں پہنچے اور اپنی ڈائری اٹھا لی لیکن اس دوران کافی دیر ہوچکی تھی ۔قانون دان نے ڈائری کی فوٹو کاپی کرالی تھی اور اگلے ہی دن وہ کورٹ میں گیا اور میرے ابا کی اجازت کے بغیر اس نے ڈائری کے مندرجات کورٹ میں پیش کئے ، میرے ابا کا نام بھی صیغہ راز میں نہ رکھا ۔ابا کہا کرتے تھے کہ انہوں نے پندرہ منٹ کے لئے ڈائری میز پر چھوڑی اوریہ بھول انکی زندگی کی سب سے بڑی اور بھیانک خطا بن گئی ۔یہ جج بھٹو کا بڑا قریبی دوست تھا ۔اس نے بھٹو کو اس ڈائری بارے سب کچھ بتادیا اور قانون دان کے بھائی کے لئے کچھ نہ کیا جاسکا۔
زیڈ اے بھٹو کو علم ہوگیا تھا کہ میرے ابا کیا کرنے جارہے ہیں ۔اس نے ابا کی گرفتاری کے لئے ایف ایس ایف کو سخت ہدایت جاری کردیں اور ایف ایس ایف کو ابا کے پاس لاہور بھیجا لیکن وہ پہلے ہی لاہور چھوڑ کر اپنے والدین کے پاس گاوں جاچکے تھے ۔ابا کچھ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے ۔ابا جانتے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ وقت اہل خانہ کے درمیان ہی بسر کرنا چاہتے تھے۔
ادھرایف ایس ایف نے ایک فوجی کار میں چند فوجیوں کوابا کی تلاش میں ہر اس جگہ دوڑایا جہاں انہیں امید ہوسکتی تھی کہ وہ مل جائیں گے ،لیکن وہ انہیں ملے تو ایک دن میرے دادا کو اطلاع ملی کہ ایف ایس ایف اور سی آئی ڈی نے گاوں کا گھیراو کرلیا ہے تو وہ فوری طور پر ابا کے کمرے میں گئے اور کہا ’’ رشید جلدی اٹھو ،گاوں میں ایف ایس ایف اور سی آئی ڈی کی گاڑیاں آچکی ہیں اور تمہیں تلاش کیاجارہا ہے ‘‘ جب تک میرے ابا نے کپڑے بدلے اس وقت تک وہ گھر کی دہلیز تک پہنچ چکے تھے ۔ایف ایس ایف کے افسر نے داداسے کہا ’’ سر ہم آپ کے بیٹے کو تفتیش کے لئے لے جانا چاہتے ہیں،آپ فکر مند نہ ہونا ،ہم اسے حفاظت سے جلد واپس لے آئیں گے ‘‘
میرے ابا دلائی کیمپ کے ان تیس قیدیوں کے واحد گواہ تھے ، میرے دادا کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ تھا ۔انہوں نے فوری طور پاکستان کے مختلف وزرا ،صحافیوں ،بی بی سی ،اور کئی اخبارات کو اپنے بیٹے کی گرفتاری بارے خط لکھ ڈالے ۔یہی وہ وجہ تھی کہ ایف ایس ایف میرے ابا کو فوری قتل کرنے سے رک گئی ۔ابا کو میڈیا کی جانب سے کافی کوریج مل گئی۔اگر انہیں پھانسی پر چڑھا دیا جاتا تو یہ بات چھپی نہ رہ سکتی تھی کہ ایف ایس ایف اور زیڈ اے بھٹوکا اصلی چہرہ کیا ہے ۔بھٹو کو اس نازک صورتحال کا ادراک ہوگیا تھا ۔ پس بھٹو کے خصوصی احکامات پر ایف ایس ایف میرے ابا کو لیکر لاہور ہیڈکوارٹر آگئی۔یہاں انہیں ایک سیف ہاوس میں کئی ماہ تک نظر بند رکھا گیا۔یہاں ابا کو کسی کے ساتھ بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔اگر وہ باہر سیر کے نکلتے تو ان کے ساتھ تین ایف ایس ایف کے افیسر بھی ہولیتے تھے ۔ کچھ ماہ بعد انہیں اسلام آباد کے سیف ہاوس میں پہنچا دیا گیا ۔
یہ بالائی منزل تھی جہاں انہیں رکھا گیا تھا ۔ا ن کے ساتھ کمرے میں ایف ایس ایف کا مخبر بھی سوتا تھا ،جبکہ سکیورٹی گارڈز اورافسر الگ سے انکی نگرانی پر مامور تھے کہ کہیں یہ فرار نہ ہوجائیں ۔قید و بند کی ان اذیت ناک گھڑیوں میں ابا نے پھر فرار کا منصوبہ بنانا شروع کردیا اور ایک رات وہ کامیاب ہوگئے ۔۔ایک بس میں بیٹھ کر اپنے دوست کے گھر پہنچ گئے جو اس وقت یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا ۔ اس نے ابا کی حالت دیکھ کر بہت پوچھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن ابا کی اس وقت حالت یہ تھی کہ وہ بری طرح نڈھال اور بھوک سے ناتواں تھے ،لہذا انہوں نے اپنے دوست کوکچھ نہیں بتایا اور صرف یہ کہا کہ وہ انہیں کھانا کھلادے اور سو لینے دے ۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ابا کو احساس ہوا کہ ایف ایس ایف والے ان کو ڈھونڈ ہی لیں گے مگر اس دوران انکی فیملی کے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے انہوں نے بس پکڑی اور دوبارہ سیف ہاوس جاپہنچے ۔ایف ایس ایف والوں نے انہیں پکڑتے ہی بری طرح تشدد شروع کردیا اور پھر انہیں کسی اور سیف ہاوس میں منتقل کردیا گیا ۔(جاری ہے )
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔