حکومت کی مخالفت اور بغاوت میں فرق

حکومت کی مخالفت اور بغاوت میں فرق
 حکومت کی مخالفت اور بغاوت میں فرق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی اور حسن یہ ہے کہ آپ کو ’’آدابِ غلامی‘‘ نہیں سکھاتی۔ جمہوریت کسی کو کسی مطلق العنان حاکم کا محکوم بننے پر مجبور نہیں کرتی۔ جمہوری نظام میں کسی ’’شہنشاہ‘‘ کے ہر طرح کے فیصلوں کو ہر صورت مانتے ہوئے سرنگوں نہیں ہونا پڑتا۔اس میں حاکمیت کا تصور مختلف ہے۔ اس نظام میں رعایا کو حاکم قرار دیا گیا ہے اور اس نظام کے تحت منتخب لوگوں کو ان کا خدمت گزار قرار دیا گیا ہے۔آپ اپنی منتخب کردہ حکومت کے ہر جائز نا جائز فیصلے کو ماننے کے پابند نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی منتخب کردہ حکومت کی کسی بھی سطح پر مخالفت کر سکتے ہیں جب آپ یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ اپنے ایجنڈے سے ہٹ کر کام کر رہی ہے یا وہ کام کر ہی نہیں رہی جس کا انتخابات کے دوران اس نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔یہ خوبی ، یہ حسن صرف جمہوری نظام میں پنہاں ہے۔باقی نظام ان خوبیوں سے عاری ہیں۔جمہوری نظام میں آپ کے منتخب نمائندے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ آپ سے کیے گئے وعدے پورے کریں ۔ورنہ انہیں آپ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگلی بار آپ ان کا احتساب کرتے ہوئے اپنے حقِ رائے دہی کے ذریعے سے مسترد بھی کر سکتے ہیں۔ آپ کا یہ حق آپ کے پاس سب سے بڑا ہتھیار ہے جو جمہوریت آپ کو فراہم کرتی ہے اور جس کی وجہ سے ’’حاکم‘‘ خود کو آپ کا ’’ محکوم‘‘ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے۔


وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے خود کو وزیرِ اعلیٰ کہنے یا کہلوانے کی بجائے اپنے لیے ’’خادمِ پنجاب‘‘ کی اصطلاح منتحب کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جمہوری نظام کو ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ ہی نہیں سمجھتے، جمہوریت کا دل سے احترام بھی کرتے ہیں اور اس کی روح کے مطابق اس پر عملی جدوجہد اور عوامی خدمت پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔ کسی کو ان کے منصوبوں پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ اس کی مخالفت بھی کر سکتا ہے۔یہ حق اسے وہ جمہوریت دیتی ہے۔دنیا کا کوئی نظام شاید ہی اس کی نظیر پیش کر سکے۔جمہوریت اپنی اسی خوبی کی بنا پر دنیا بھر میں ہر دل عزیز نظام حکومت قرار پایا ہے۔


جمہوریت آپ کو یہ آزادی فرہم کرتی ہے کہ آپ اس نظام کے تحت منتخب حکومت کے کسی منصوبے یا پالیسی کی نہ صرف مخالفت کا حق محفوظ رکھتے ہیں بلکہ اس حق کا عملی مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہم نے جمہوریت کو اپنا تو لیا ہے لیکن اس کو صحیح طور پر سمجھا نہیں۔آپ حکومت کی پالیسیوں اور اس کے منصوبوں کی بھرپور مخالفت کیجیے یہ آپ کا جمہوری اور آئینی حق ہے، لیکن مخالفت اور بغاوت میں فرق بھی تو روا رکھیں۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ مخالفت کیا ہے اور یہ بغاوت میں کب بدلتی ہے۔ مجھے میرآئین اور یہاں رائج جمہوری نظام اورنج ٹرین منصوبے کی مخالفت کی اجازت دیتا ہے۔ اس پر ہر فورم ، ہر سطح پر تنقید کرنے کی آزادی اور مواقع فراہم کرتا ہے، مگر یہ بھی تلقین کرتا ہے کہ میں اس مخالفت کو مخالفت ہی رہنے دوں اس کو حکومتِ وقت کے خلاف بغاوت میں نہ بدلنے دوں۔ میں کسی چوراہے، میدان، اخبار، ٹی وی کے ذریعے لوگوں تک اپنی آواز ، اپنا موقف تو ضرور پہنچاؤں۔ ان کو دلیل سے قائل کروں کہ حکومتِ وقت کا یہ منصوبہ یا سارے منصوبے غیر منافع بخش، غیر معیاری،غیر مفیدیاملکی مفاد کے خلاف ہیں۔ میں دلائل سے لوگوں کو اپنے موقف کی سچائی سے آگاہ کروں یہ میرا آئینی اور جمہوری حق ہے ، لیکن مخالفت کرتے کرتے لوگوں کومنتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ابھارنا یہ بغاوت ہے۔ اس کی نہ تو مجھے آئین اجازت دیتا ہے اور نہ وہ جمہوریت جس کا نام لے کر میں اپنی مخالفت کو بغاوت میں بدل چکا ہوں۔ مجھے آئین یہ حق دیتا ہے کہ میں ملک کے کسی بھی چوک یاڈی چوک میں کئی روز تک کسی کنٹینر پرکھڑا ہو کے اپنے موقف کی وضاحت کروں۔ تمام وسائل کو برئے کار لاتے ہوئے لوگوں تک اپنے موقف پہچاؤں، ان کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں، لیکن آئین اور جمہوریت مجھے یہ اجازت نہیں دیتے کہ میں اپنی ’’نوبال‘‘ پر کسی ’’ایمپائر‘‘سے کہوں کہ آپ منتخب جمہوری حکومت کو’’آؤٹ‘‘ قرار دے کر اُسے ایوانِ اقتدار سے چلتا کر دیں۔مجھے ثابت کرنا ہو گا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ اگر مہنگا ہے تو اس سے کم لاگت میں ایسا کونسا منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے عام آدمی تیس کلو میٹر کا سفربڑے آرام اور سکون کے ساتھ محض تیس روپے یا اس سے بھی کم پیسوں میں کر پائے۔ مجھے پورا حق حاصل ہے کہ میں میاں نواز شریف کا نام یا ان کے کسی بچے کا نام پانامہ لیکس میں آنے کا ڈھنڈورہ پیٹوں اور کہوں کہ انہوں نے اربوں روپے غیر قانونی طریقے سے کمائے ہیں۔مگر میں خود لاہور کے ایک حلقے سے الیکشن جیتنے کے لیے تین سو کروڑ خرچ کر دیتا ہوں وہ میں کونسے قارون کے خزانے سے لایا ہوں،مجھے بھی یہ بتانا ہوگا۔مجھ پر واجب ہے کہ میں مسلسل کئی ماہ تک ڈی چوک میں ’’مجمع‘‘ لگائے رکھنے پر اٹھنے والے کروڑوں ، اربوں روپوں کا حساب دوں کہ یہ کس نے اور کن مقاصد کے لیے فراہم کیے۔کیا واقعی ان کی فراہمی اور خرچ کا مقصد عوام کو حکومت کی غلط پالیسیوں سے آگاہ کرنا تھا یا غیر آئینی، غیر جمہوری طریقے بغاوت کرکے بذریعہ ’’ایمپائر‘‘ عوام کے حقِ رائے دہی پرشب خون مارنا تھا۔مجھے حق حاصل ہے کہ میں کینیڈا سے اچانک آؤں، کنٹینر پر چڑھوں اور بتاؤں کہ یہ حکمران آئین کے آرٹیکل 62,63پر پورا نہیں اترتے کیونکہ یہ صادق اور امین نہیں ہیں۔ لیکن مجھے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ میں ماڈل ٹاؤں لاہور سے نکلنے سے پہلے جب یہ کہتا ہوں کہ اب میں انقلاب لائے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آؤں گا اور جو ’’انقلاب‘‘ لائے بغیر واپس آئے وہ واجب القتل ہے، تو میں اپنے قول پر قائم کیوں نہیں رہتا؟آئین کا آرٹیکل 62,63مجھے اب بھی صادق اور امین کس طرح قرار دیتا ہے ؟

مزید :

کالم -