واہ ری گندم تیرے مسائل بھی عجیب

واہ ری گندم تیرے مسائل بھی عجیب
 واہ ری گندم تیرے مسائل بھی عجیب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بعض چیزیں انسان کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے لازمی ہوتی ہیں، جیسے سانس، ہوا پانی اور خوراک اور جب ذکر خوراک کا آئے تو گندم کا نام اِس لئے ذہن میں فوری آتا ہے کہ اِس سے بننے والی روٹی ہم سب کی اہم ترین غذا ہے۔ پاکستان کو گندم کی پیداوار کے حوالے سے بہت پریشان کن حالات سے بھی گزرنا پڑا اور درآمد پر گزارہ کرنا پڑا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے کسانوں کو دی جانے والی سہولتیں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے 341 اور 200ارب روپے کے پیکیجز نے خاص طور پر کسان کی عمومی حالت بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور گندم کی پیداوار میں خود کفالت بھی ہوئی ہے، جو کبھی ایک خواب ہوا کرتا تھا۔ پاکستان کی ضرورت دو کروڑ، 20 یا 25لاکھ ٹن سے زائد نہیں، مگر الحمد للہ ہماری ملکی پیداوار تسلسل سے2کروڑ40اور45لاکھ ٹن کے درمیان آ رہی ہے۔ اس میں اللہ کا کرم، کسان کی محنت اور حکومتی کاوشوں کا عمل دخل ہے، مگر ہم خود کفیل ہونے کی منزل حاصل کرنے کے بعد پالیسی کے معاملے میں لاپرواہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کو بین الاقوامی طور پر سراہا جا رہا ہے،مگر ہم حیران ہیں کہ زائد گندم کی نکاسی کرپٹ اور لالچی افراد کے حوالے کیوں کر دی گئی ہے؟


گندم گزشتہ تین برس سے زائد از ضرورت چلی آ رہی ہے اور زائد گندم کی مقدار میں ہر سال20لاکھ ٹن کا اضافہ نہ صرف قومی خزانے کا ضیاع ہے،بلکہ اس کے لئے مناسب سٹوریج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی کوالٹی بھی انتہائی ناقص ہو جاتی ہے۔ہم نے بارہا یہ بتایا کہ60لاکھ ٹن سے70لاکھ ٹن زائد گندم پاکستان اپنے پاس رکھنا افورڈ ہی نہیں کر سکتا، نہ ہی ہم امریکہ ہیں کہ اسے سمندرمیں پھینک دیں، مگر ہم نے گندم کی ایکسپورٹ کے سلسلے میں روایتی اور مجوزہ طریقہ کار کو چھوڑ کر یہ پیغام ضرور دے دیا ہے کہ سرکاری سیکٹر نہ تو اِس گندم کو سنبھال سکتا ہے اور نہ ہی اِس کی نکاسی کر سکتا ہے،کیونکہ گزشتہ دو برسوں سے صوبوں کے بعض عناصر نے وفاق کو سرکاری طور پر تجاویز بھجوائیں جو پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر تیار کی گئیں اور اس کے تحت گندم اور آٹے کی ایکسپورٹ پر ری بیٹ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا، جس کے تحت عالمی مارکیٹ میں گندم کی کم قیمتوں کو وجہ بنا کر بعض عناصر کو خصوصی طور پر یہ اجازت دی گئی کہ وہ پنجاب اور سندھ کے محکمہ خوراک سے سستی گندم خرید کر اُسے گندم یا آٹے کی شکل میں برآمد کر دیں اور حکومت، یعنی ایف بی آر سے90سے 120 ڈالر اور اب زیادہ کی ڈیمانڈ کر کے وصول کر لیں۔ یہ واردات اس لئے کی گئی کہ وفاقی حکومت کی توجہ ٹی سی پی سے ہٹا کر پرائیویٹ سیکٹر کی استعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔


اب صورت حال یہ ہے کہ وہ80فیصد گندم انہی مارکیٹوں میں،یعنی اپنی ملکی مارکیٹ میں فروخت کر کے ری بیٹ کے کلیم برائے ایکسپورٹ داخل کر دیئے گئے اور حاصل کئے گئے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گندم کے اضافی سٹاکس میں کمی نہیں ہوئی، بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ اب بھی پنجاب سمیت تمام مُلک میں60لاکھ ٹن کے قریب گندم موجود ہے، جس کا سرکاری خزانے پر بوجھ اربوں روپے میں ہے۔کیا اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس طرح خراب کرنا کسی بھی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟ کیا ہم یہ بھول گئے کہ اگر حکومت خود یہ گندم ایکسپورٹ کرتی اور سرکاری اہلکار جن کا کام سارے سال میں گندم خریدنا اور وہ بھی ایک ماہ کے لئے اُن سے کام لیتے ہوئے اسے صاف کر کے باہر بھجواتی تو مالی نقصان ضرور ہوتا، مگر گندم تو باہر چلی جاتی، اب جبکہ نئی فصل سر پر اور الیکشن کا زمانہ قریب ہے۔ سیاسی حکومت کا تقاضا یا مجبوری ہے کہ وہ گندم پوری مقدار میں خرید کر کسان کو اور زمیندار طبقے کو خوش کرے گی، مگر اس کا نقصان دہ پہلو یہ ہو گا کہ پہلے سے موجود گندم کی مقدار میں آئندہ برس مزید اضافہ ہوگا اور اگر ایکسپورٹ پالیسی کو اِسی طرح ری بیٹ پر جاری رکھا گیا تو قدرتی مارکیٹنگ کے سب طریقے ناکام ہو جائیں گے۔


حکومت کو چاہئے کہ ری بیٹ کی پالیسی ختم کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بہتر بنائے۔ فلور ملوں کو سہولتی پیکیج دے تاکہ گندم کا آٹا اور دوسری مصنوعات کو برآمد کرنے میں آسانی ہو اور مخصوص ٹولہ نہیں، بلکہ ہر کوئی اُس میں شامل ہو، جبکہ گندم کو صرف سرکار اپنے اداروں پاسکو، ٹی سی پی کے ذریعے ایکسپورٹ کرے۔ بھلے عالمی مارکیٹ کچھ بھی ہو، حکومت آئندہ فصل کی خریداری کو بہتر بنانے کے لئے نقصان بھی کر سکتی ہے، مگر ری بیٹ کی شکل میں کیا گیا نقصان دو روپے کی روٹی سے بھی بڑا سکینڈل ہو گا۔وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں واضح اور ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعے اس میں سے کرپشن کا عنصر ختم کر کے قوم کو گندم کی برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کی خوشخبری دے۔گزشتہ برس کی افغان رپورٹ کے مطابق پاکستان سے صرف85ہزار ٹن آٹا افغانستان میں اُترا،جبکہ یہاں کے کاغذوں کو دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ حکومت کتنا کچھ گنوا چکی ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ ان معاملات کو سمجھتے ہیں اور خاصے متحرک ہیں، اُنہیں چاہئے کہ جو بھی سمریاں منظور کی گئیں، ان کے نتائج کا ازسر نو جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ کے ہاں سٹاکس میں اضافہ ہی ہوا، کمی نہیں،اس لئے گندم میں خود کفالت کی منزل کے بعد ’’واہ ری گندم‘‘ تجھے فروخت کرنے کا طریقہ کار بھی چاہئے۔

مزید :

کالم -