بدنام کرنے کی سیاست فقط جہالت ہے
پاکستان میں سیاسی امور کی سرگرمیوں سے ملکی تعمیر و ترقی کی جانب پیش رفت میں رکاوٹیں کیوں حائل ہو رہی ہیں؟ اس بارے میں سیاسی رہنماؤں کو اپنی کارکردگی اور حریف رہنماؤں کے طرز عمل پر خلوص نیت سے غور و فکر کر کے مروجہ کوتاہیوں اور غلط کاریوں کو درست کرنے کی حکمت عملی جلد اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں یہ امر بھی ذہن نشین رکھا جائے کہ سیاسی رہنما اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے یا اس کے حصول کی تگ و دو کے مراحل میں عوام کی نمائندگی کی ذمہ داریاں ملکی آئین و قانون کے تحت انجام دینے کی پابندیوں پر عمل درآمد سے گریز نہیں کر سکتے،ان پابندیوں کی خلاف ورزی پر اصرار اور اس روش کو برقرار رکھنے کا وتیرہ دہراتے رہنا سراسر منفی اور نقصان دہ انداز فکر و عمل ہے جبکہ حصول اقتدار کی تمام تگ و دو اور کارروائیاں آئین و قانون کے تابع رہنے اور تعمیل کی حدود و قیود سے باہر نہیں کی جا سکتیں۔ ایسا کرنا بلا شبہ تادیب کے زمرے میں آتا ہے، کیا ملک میں امن و امان قائم رکھنا، تمام سیاسی رہنماؤں کی اولین ذمہ داری نہیں ہے؟ بعض جائز مطالبات پر احتجاجی مظاہروں کے حق کے ساتھ عام لوگوں کے حقوق مثلاً آمد و رفت کے تحفظ کی سہولت لوگوں کے جان و مال اور عزت و احترام کی حفاظت اور ایسے اجتماعات میں تخریب کار عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ذمہ داری بھی سیاسی رہنماؤں پر ہی عائد ہوتی ہے،ان خطرات کو پیش نظر رکھ کر گاہے بگاہے متعلقہ اداروں کو اپنی تجاویز پر نظر ثانی کرتے ہوئے موثر اقدامات کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔ ہمارے ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے لئے معاشی ماہرین کی مشاورت اور تجاویز کو ترجیح دے کر جلد عمل درآمد کیا جائے۔ تجارت کے فروغ کے لئے متعلقہ نمائندوں کی مثبت اور قابل عمل تجاویز پر بھی خلوص نیت سے توجہ دے کر کوتاہیوں کے عوامل کی اصلاح کی جائے۔
بلکہ بہتر یہ ہے کہ سب ادارے اپنی روایتی غلط کاریوں کو ختم یا کم کرنے کے موثر اقدامات باقاعدگی سے بروئے کار لائیں کیونکہ سرکاری امور میں اکثر محکموں میں کروڑوں اور اربوں روپے کی بدعنوانی آئے روز منظر عام پر آتی رہتی ہے، ان کی روک تھام کے لئے سینئر افسران اور حکام کو محنت اور دیانت کا سخت اور موثر احتسابی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسے لوٹ مار اور خورد برد کے معاملات میں سیاسی رہنما سرپرستی یا پشت پناہی میں ملوث ہوتے ہیں تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق جلد اور بروقت متعلقہ ادارے حرکت میں آ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ وطن عزیز میں پبلک فنڈز کو متعلقہ منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے ان کی تمام یا رقوم کا بڑا حصہ سیاست کار اور سرکاری افسر زیادہ تر باہمی تعاون اور ملکی بھگت سے خورد برد کر کے اپنے ذاتی اثاثے بنا لیتے ہیں بیرون ملک بھیج دیتے ہیں یا ان سے عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں، یہ امر سیاسی رہنماؤں اور معاشی ماہرین کے لئے قابل غور ہے کہ وطن عزیز کے 22 کروڑ تگڑے جواں ہمت محنتی اور بین الاقوامی معیار کے اہل قابل ذہین باصلاحیت اور نامی گرامی لوگوں کا ملک ہونے کے باوجود تا حال خود انحصاری کے حصول سے محروم کیوں ہے؟ ہم چند سال قبل گندم، کپاس، چینی، دالیں اور بعض دیگر ضروریات برائے خوراک وافر مقدار میں یہاں پیدا کر رہے تھے اب ان کی کمی ہونے سے مزید اربوں روپے سالانہ کے اخراجات سے درآمد کرنے پر مجبور ہو گئے اس بارے میں جولائی سے ستمبر 22ء تک کا شدید بارشوں سے حالیہ سیلاب بعد میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ اس موسمیاتی تبدیلی سے سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے کروڑوں لوگوں کو اپنی املاک کے نقصانات سے مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا جو بدقسمتی سے آج تک کئی علاقوں میں جاری ہے۔ اہل وطن کو وزیر اعظم ریلیف فنڈ میں اپنے عطیات فراخ دلی سے جمع کرانے کی قومی خدمت اپنے ملک کے عوام کی پریشانیوں کو ختم کرنے کی خاطر خلوص نیت اور جذبہ حب الوطنی سے جاری رکھنی چاہئے۔