ویل ڈن چوہدری مشتاق حسین برگٹ
قلعہ روہتاس جہلم کی پہچان ہے۔ اسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا تھا۔ کیونکہ گکھڑ سردار اس کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس نے گکھڑوں سے کہا کہ خدا نے چاہا تو تمہارے سینے میں ایک ایسی میخ ٹھونکوں گاجسے کوئی قیامت تک نہیں نکال سکے گا۔ رضا علی عابدی کے بقول اس کے بعد شیر شاہ نے اپنے وزیر مال ٹوڈر مل کو حکم دیا کہ وہ قلعہ روہتاس تعمیر کرے۔ مگر گکھڑ سرداروں نے اعلان کیا کہ یہ قلعہ نہیں بنے گا۔ علاقے کا کوئی بھی شخص مزدوری نہیں کرے گا۔ تمام گکھڑ آبادی سرداروں کے تابع تھی۔ کس کی مجال تھی کہ اس حکم سے سرتابی کرے؟ چنانچہ ٹوڈر کھتری کو پتھرڈھونے اور تراشنے کے لئے ایک بھی مزدور نہ ملا اور قلعے کی تعمیر شروع نہ ہو سکی۔ اس نے شیرشاہ کو اس معاملے سے آگاہ کیا تو جواب آیا کہ میں تو تمہیں ہوشیار اور تجربہ کار آدمی سمجھتا تھا۔ تمہیں پیسہ مل چکا ہے۔ کسی بھی قیمت پر قلعہ تعمیر کرو۔ خزانے سے رقم نکلواؤ۔ چاہے جتنی رقم خرچ ہو مجھے اس کی پروا نہیں۔
بادشاہ کا یہ حکم ملتے ہیں ٹوڈر نے تمام علاقے میں اعلان کر دیا کہ پتھر لانے والوں کو ہر پتھر پر ایک اشرفی دی جائے گی۔ یہ اعلان ہونا تھا کہ چہار جانب سے لوگ پتھر لاد لاد کر پہنچنا شروع ہو گئے۔ اشرفیاں بٹنے لگیں اور اب تو مزدوروں کی ایسی یلغار ہوئی کہ ایک ایک پتھر کا معاوضہ گھٹتے گھٹتے ایک دام، پھر دس ٹکا اور ایک بہلولی رہ گیا۔
قلعہ روہتاس کی یہ کہانی بی بی سی کے رضاعلی عابدی نے بیان کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انگریزوں نے جب یہ شہر جہلم سے چھینا تو یہاں صرف پانچ سو مکان تھے اور انگریزوں نے اس علاقے کے مکینوں کو ان پڑھ رکھاتاکہ وہ فوج میں جانے کے علاوہ کوئی کام نہ کر سکیں۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے بعد وادی جہلم کے لوگوں نے برطانیہ کا رخ کیا۔ دوسرے ممالک میں گئے اور یہاں بے پناہ دولت آئی۔ اس دولت نے یہاں بڑی بڑی عمارتیں تو تعمیر کر دیں مگر انسانوں سے محبت کرنے اور ان کی حالت بہتر کرنے کا جذبہ کم کم نظر آتا ہے۔
قلعہ روہتاس اور راجہ پورس سے بھی بڑھ کر اس خطے کو میاں محمد بخشؒ نے متاثر کیا۔ اللہ اور انسان سے محبت کی، ان کی شاعری دلوں میں اترتی ہے۔ مگر اس شاعری نے جس انسان کے دل کو بہت زیادہ متاثر کیا وہ چوہدری مشتاق حسین برگٹ تھے۔
جہلم کے سپوت چوہدری مشتاق حسین برگٹ پولیس افسر تھے۔ پولیس والوں کی لوگ اتنی خدمت کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر اپنے گھر کے کھانے کا ذائقہ بھول جاتے ہیں۔ مگر چوہدری مشتاق حسین کو اللہ نے کچھ مختلف پیداکیا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے تھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان سے محبت کرنے والے پورے کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں۔ وادی جہلم کے لوگ خود دیارغیر میں رہتے ہیں مگر بڑے بڑے گھر بناتے ہیں جہاں ان کے نوکر مفت کے مزے لیتے ہیں۔ عزت کے لئے بڑی گاڑیاں بھی خریدتے ہیں۔ مگر شاید کسی کے دماغ میں نہیں آتا کہ اس نے اپنی اس دھرتی کا حق بھی ادا کرنا ہے۔ اس علاقے میں دولت اکٹھی کرنے والوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔ مگر چوہدری مشتاق حسین برگٹ مختلف انداز میں سوچتے تھے۔ وہ اکثر اپنے دوستوں کو مذاق سے کہتے تھے کہ آپ اتنی دولت اکٹھی کر رہے ہیں مگر خیال رہے کہ یہ کرنسی اگلی دنیا میں نہیں چلنی ہے۔
چوہدری مشتاق شیرشاہ سوری نہیں تھے مگر انہوں نے شیرشاہ سوری سے بھی بڑا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے آبائی گاؤں دھنیالہ میں ایک ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے پاس شیرشاہ سوری کی طرح خزانے نہیں تھے۔ مگر انہوں نے میاں محمد بخشؒ ہسپتال اپنی زندگی میں ہی مکمل کر لیا۔ وادی جہلم کے اس گاؤں میں یہ ہسپتال ایک معجزہ سا محسوس ہوتا ہے۔ ہسپتال کی کثیرمنزلہ عمارت کا نظارہ آپ کو مبہوت کر دیتا ہے۔ یہ ایک جدیدترین ہسپتال ہے اور یہ ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جس کے پاس شیرشاہ سوری جیسے خزانے نہیں تھے مگر اس سے کہیں بڑا دل تھا۔ روہتاس قلعہ فوجی مقاصد کے لئے تعمیر ہوا تھا۔ میاں محمد بخشؒ ہسپتال غریبوں میں شفا بانٹ رہا ہے۔ چند میل دور آسودہ خاک میاں محمد بخشؒ اپنے نام پر قائم ہونے والے اس ہسپتال کی کارکردگی پر خوش ہوتے ہوں گے اور جب غریب مریضوں کی دعائیں ان تک پہنچتی ہوں گی تو ”ویل ڈن چوہدری مشتاق حسین برگٹ“ کی صدائیں مفت میں چاروں طرف پھیل جاتی ہوں گی۔