امریکی ویوکرائنی صدور کی لڑائی 

  امریکی ویوکرائنی صدور کی لڑائی 
  امریکی ویوکرائنی صدور کی لڑائی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرائنی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان میڈیا کے سامنے جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا میں حیرت کے ساتھ دیکھا گیا ہے اس پر تبصرے بھی ہو رہے ہیں۔ یوکرائن کا موجودہ کرائسس اس وقت شروع ہوا جب 24فروری 2022ء میں روسی افواج نے یوکرائن پر حملہ کیا ویسے تو یہ لڑائی اس سے پہلے آٹھ سال سے جاری تھی۔ یوکرائنی حکومت، مشرقی یوکرائن میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ میں ملوث تھی۔ روس، بنیادی طور پر،یوکرائن میں بسنے والے اپنے شہریوں یعنی روسیوں کی حفاظت اور خیریت کے لئے کوشاں ہے۔ روس یوکرائن کی ایک جائز ریاست کے طور پر وجود کے ہی خلاف ہے وہ اسے ناجائز نازی ریاست سمجھتا ہے جو دربناس میں بسنے والی روسی اقلیت کے قتل عام اور نسل کشی کی ذمہ دار ہے۔

دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے باضابطہ خاتمے تک یوکرائن اس کا حصہ تھا ویسے تو جب 1990ء میں اشتراکی ریاست کے خاتمے کی باتیں شروع ہوئیں تو 16جولائی 1990ء میں یوکرائن نے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ پھر 24اگست 1991ء میں ایک قومی استصوابِ رائے کے ذریعے یوکرائنی پارلیمنٹ کے اعلانِ آزادی کی توثیق کر دی گئی پھر دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی یوکرائن ایک مکمل آزاد ریاست کے طور پر ابھرا۔ یوکرائن، مشرقی یورپ کا روس کے بعد سب سے بڑا ملک ہے اس کی آبادی 4کروڑ 27لاکھ نفوس پر مشتمل ہے کیف اس کا دارالحکومت ہے۔ آبادی کا 75فیصد یوکرائنی نفوس پر مشتمل ہے۔ روسی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔

یوکرین نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے کلچر، رہن سہن اور قومیت کے فروغ کی کاوشیں شروع کیں۔ یورپی ممالک کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے شروع کئے تجارت بڑھانا شروع کی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان ایک بات طے پائی تھی کہ امریکہ سنٹرل ایشین/ سابقہ سوویت یونین سے جڑے ممالک کو ناٹو میں شامل نہیں کرے گا، لیکن امریکہ نے اس کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ 2008ء میں یوکرائن کو ناٹو میں شامل کرلیا گیا۔ اس طرح روسی سرحدوں پر خطرہ منڈلانے لگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغرب نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کے ساتھ معاملات اس طرح نہیں رکھے جس طرح روس کو توقع تھی پھر یوکرائن کی ناٹو میں شمولیت نے معاملات میں بگاڑ پیدا کیا جو بڑھتے بڑھتے حالیہ جنگ تک جا پہنچا۔سوویت  یونین کے خاتمے کے وقت پوٹن کے جی بی کے سربراہ تھے انہیں یوکرائن کے روسی کلچر  و ثقافت کے قرب کا بھی پتہ تھا وہ اسے روس کا حصہ بھی سمجھتے تھے انہوں نے کبھی بھی اسے ایک حقیقی آزاد ریاست کے طور پر نہیں دیکھا۔ 2014ء میں جب ایک بغاوت کے نتیجے میں روسی دوست حکومت کا خاتمہ ہو گیا  تو اس سے بھی پوٹن کے غم و غصے میں اضافہ ہوا۔ اس حکومت نے یورپی یونین  کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا شروع کر دیئے۔ اسی دوران پوٹن نے کریمیا پر قبضہ کرکے اسے روس میں ضم کرلیا۔

پوٹن ”روسی دنیا“ کا احیا چاہتے ہیں وہ ایک ایسی وراثت چھوڑنے کے خواہشمند ہیں جو ایک عرصے تک ان کی یاد دلاتی رہے جس طرح پیٹردی گریٹ نے اپنے زمانے میں روسی سلطنت کو وسیع کیا تھا پوٹن بھی ایسا ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ 2014ء  میں کریمیا پر قبضے کے بعد 2022ء میں یوکرین پر فوج کشی اسی سوچ کی عکاس ہے۔ یوکرائن پر فوج کشی کے وقت پوٹن کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی اسے بھولی بسری یاد بنا ڈالیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ امریکہ اور یورپ نے یہاں روس کو پھنسانے کا منصوبہ بنایا تاکہ اس کی طاقت یہاں خرچ ہو اور وہ کبھی بھی دوبارہ عالمی طاقت کے طور پر اپنا آپ منوا سکے۔

ذرا غور کریں سوویت یونین نے 9سال تک افغانستان میں فوجی آپریشن جاری رکھا۔ 1979ء تا 1989ء یہاں افغانستان میں اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت براجمان رہا لیکن افغان مجاہدین کے ہاتھوں عبرتناک شکست کھا کر واپس گیا تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ عظیم الشان اشتراکی سلطنت 15ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ سوویت یونین کا عالمی دبدبہ ختم ہو گیا۔ امریکہ نے سپریم عالمی طاقت ہونے کا اعلان کر دیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے اعلان کے ساتھ ہی 2001ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اپنے درجنوں اتحادیوں کی افواج کے ساتھ افغانستان کو پتھر کے دور تک لے جانے اور پہنچانے کے لئے امریکہ یہاں 20سال تک کاوش کرتا رہا، حتیٰ کہ امریکی افواج جس طرح اپنا ساز و سامان یہاں چھوڑ کر بھاگیں اور وہ منظر پوری دنیا نے بھی دیکھا، اس سے امریکی عظمت کا بت بھی پاش پاش ہوا۔ امریکی دہشت اور وحشت میں کمی آئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کچھ کر رہا ہے اس نے جنوری 2025ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جو حرکتیں شروع کر رکھی ہیں اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ امریکہ اب ویسی سپریم پاور نہیں رہا جیسی کبھی پہلے تھی۔ امریکی صدر، امریکہ کے ساتھ بھی دست و گریبان نظر آ رہے ہیں وہ جس انداز میں انقلابی اقدامات کر رہے ہیں اس سے امریکہ کی کمزوری کا تاثر ابھرتا ہے انہوں نے زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ کیا، کیا وہ ایک عالمی طاقت کے صدر کے شایانِ شان ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ نے اربوں ڈالر یوکرائن میں خرچ کئے ہیں تاکہ وہ روس کے خلاف جنگ ہار نہ جائے بلکہ روس کو جنگ میں شکست دے اپنی سالمیت برقرار رکھے لیکن امریکہ کو اپنے عزائم میں کامیابی نہیں آ رہی ہے۔ 350 ارب ڈالر اس جنگ میں جھونکنے کے باوجود روس کی شکست سامنے نظر نہیں آ رہی ہے جس طرح 900 ارب ڈالر سے زیادہ افغان جنگ میں خرچ کرنے کے باوجود فتح حاصل نہیں ہو سکی اور امریکی شکست کا داغ لئے وہاں سے رخصت ہوئے بالکل ایسے ہی امریکہ اس جنگ میں 350ارب ڈالرخرچ کرنے کے باوجود فتح کا منہ نہیں دیکھ سکا اور اب امریکی صدر نہ صرف اس جنگ کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں بلکہ یوکرائن سے منرلز وغیرہ کے لئے معاہدہ کرکے زرتلافی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ زیلنسکی کے ساتھ حالیہ ملاقات میں معاہدے پر دستخط ہونا طے تھا لیکن یہ ملاقات بدمزگی کا شکار ہو گئی۔ بحث جاری ہے کہ کس نے کس کی بے عزتی کی؟کس کا رویہ غیر مناسب تھا اور کتنا؟ لیکن اب بات طے ہے کہ امریکی صدر کا پروگرام تووڑ گیا ہے ایک چھوٹے سے ملک کے سربراہ نے،جو امریکی امداد کے سہارے کھڑ اہے، امریکی صدر کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر نہ صرف امریکی ہیبت کے سامنے جھکنے سے انکار کیا بلکہ اپنی قومی حمیت کا مظاہرہ کیا۔ اب آنے والا وقت بتائے گا کہ امریکہ کہاں کھڑا ہے؟ اس کی عالمی برتری کیا قائم رہے گی یا نہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے انقلابی خیالات اور ان کے مطابق اقدامات امریکہ کو کہاں لے جائیں گے، ذرا انتظار کریں۔

مزید :

رائے -کالم -