ویل ڈن سلمان غنی

 ویل ڈن سلمان غنی
 ویل ڈن سلمان غنی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 چند روز قبل میڈیا میں یہ خبر آئی کہ سلمان غنی صاحب کو ایوانِ اقبال کے ایک بڑے عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے،یہ عہدہ اعزازی ہے لیکن یہ اتنا بڑا ہے کہ بہت سے لوگ اس عہدے کو پروٹوکول دیتے ہیں اور باقی اس کی عزت کرنے کی ایکٹنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کی توقع کے خلاف اور ہماری توقع کے عین مطابق سلمان غنی نے عہدے کی پیشکش کو  ٹھوکر مارنے کی واہیات سی حرکت کرنے کی بجائے شائستگی کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ انہیں صحافی ہونا پسند ہے اور وہ فخر کرتے ہیں کہ وہ صحافی ہیں اور پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جس صحافی نے بھی سرکاری عہدہ قبول کیا، صحافت نے اگر اسے طلاق نہیں دی تو کم ازکم  ایک ایسی بیوی کی طرح ضرور رکھا جسے اپنے شوہر سے ہمیشہ شکایت رہتی ہے۔میاں شہبازشریف اچھے منتظم ہیں مگر ان کے کام کرنے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ان کی توقع پر پورا نہیں اترتے تو پھر آپ میں اپنی بے عزتی کروانے کے لیے قوت برداشت کا خزانہ ہونا چاہیے، میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو ان سے ملنے کے لیے جانے والے تقریباً ہر سیاستدان اور افسر کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ جس عزت کے ساتھ ملاقات کے لیے وزیراعلیٰ کے کمرے میں داخل ہو رہا ہے واپسی پر وہ عزت اس کے پاس ہو گی یا نہیں۔


سلمان غنی صاحب بھی شہبازشریف سے ملنے کے لیے جاتے تھے، انہیں کبھی شبہ نہیں ہوتا ہو گا کہ ان کی بے عزتی کی جا سکتی ہے بلکہ میاں شہبازشریف کے متعلق گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ خائف ہو سکتے ہیں کیونکہ سلمان غنی صاحب حکمرانوں کے سامنے سچ بولتے ہوئے سٹوڈنٹ لیڈر بھی بن جاتے ہیں، صحافی بننے سے پہلے سلمان غنی صاحب سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ گورنمنٹ کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے،اپنی دبنگ تقریروں میں کلمہ حق کہنے کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے سلمان غنی صاحب صحافی بنے مگر انہوں نے اپنے اندر سٹوڈنٹ لیڈر کو زندہ رکھا، اگر آپ کی ان سے ملاقات ہوتی ہے، ان کی تقریریں سنتے ہیں، ٹی وی پر ان کے پروگرام دیکھتے ہیں تو آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ سلمان غنی میں وہ سٹوڈنٹ لیڈر بار بار دکھائی دیتا ہے جس کا سچ مصلحت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 


میاں نوازشریف سلمان غنی سے محبت کرتے ہیں وہ اس واقعہ کو نہیں بھولتے جب لاہور میں بیگم کلثوم نوازشریف کی کار کو اٹھایا گیا تھا اور بیگم کلثوم نے احتجاج کی ایک انوکھی اور جرأت مندانہ مثال قائم کی تھی اس وقت سلمان غنی صاحب نے بڑی جرأت مندی کے ساتھ اس واقعے کی کوریج کی تھی،میاں نواز شریف اسے اپنے خاندان کے لیے سلمان غنی کا احسان سمجھتے ہوں گے مگر سلمان غنی اسی انداز سے رپورٹنگ کرتے اگر یہ واقعہ عمران خان کی اہلیہ کے ساتھ پیش آتا۔ سلمان غنی نے ہمیشہ اپنے اندر کے صحافی کو عزت سے رکھا ہے، آج میڈیا مارکیٹ میں گالیاں، الزامات اور سکینڈلز بھاری قیمت پر فروخت ہوتے ہیں، بہت سے باعزت گھروں کے لوگ گالیاں دے کر اپنے بزرگوں کی عزت فروخت کر رہے ہیں۔ سلمان غنی صاحب کے متعلق میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف مل کر ان سے یہ فرمائش کریں کہ وہ عمران خان کو گالی دیں تو وہ کسی صورت اسے پورا نہیں کریں گے کیونکہ وہ ایک ایسے باپ کے بیٹے ہیں جو عزت، دیانت، شرافت اور شائستگی کے حوالے سے اوکاڑہ میں معروف تھے، اپنے باپ کا ذکر کرتے ہوئے وہ آج بھی جذباتی ہو جاتے ہیں۔ سلمان غنی صاحب کو یقین ہے کہ اگر وہ کسی کی فرمائش پر عمران خان کو گالی دے کر شائستگی اور شرافت کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیں گے تو ان کے قابل عزت باپ کی روح آ کر کہے گی ”سلمان یہ تم نے کیا کر دیا؟“ سلمان غنی صاحب کے لیے اپنے باپ کا قابل فخر بیٹا ہونا اہم ترین ہے اور ان کی خواہش ہے کہ جب دوسری دنیا میں ان کی اپنے باپ سے ملاقات ہو تو وہ فخر سے کہہ سکیں ”ویل ڈن سلمان“۔


اشفاق احمد صاحب نے کہا تھا کہ صوفی وہ ہوتا ہے جو خطرے کے وقت سب سے آگے ہو اور انعام کے وقت سب سے پیچھے ہو۔ اکبر الٰہ آبادی اسی کو ولی سمجھتے تھے جس میں تھوڑا سا خوف خدا دیکھتے تھے۔ سلمان غنی صاحب خطرے کے وقت سب سے آگے ہوتے ہیں اور انعام کے وقت سب سے پیچھے اور خوف خدا تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ہم اشفاق احمد اور اکبر الٰہ آبادی کے قول کو مستند سمجھتے ہیں مگر سلمان صاحب کو صوفی یا ولی اللہ کہنے کا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں، خود سلمان صاحب کو بھی صوفی یا ولی اللہ ہونے کا آپشن کچھ زیادہ پسند نہیں ہو گا کیونکہ صوفی اور ولی اللہ آخر میں اپنی ذات میں تنہا رہ جاتا ہے جبکہ سلمان صاحب مجلسی آدمی ہیں وہ تنہا نہیں رہ سکتے ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے قہقہہ لگا دیا تو ان کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا، مگر سلمان صاحب کی مجلس میں قہقہوں کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ وہ صحافت کے ایسے نشے میں مبتلا ہیں جس میں ہر لالچ بے معنی دکھائی دیتا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -