ڈاکٹر مجاہد منصوری کے نام ایک کھلا خط (آخری قسط)
مجاہد صاحب!
آپ نے پہلے سوچا ہوگا کہ یہ سب پرانی باتیں صرف مجھے بتانے کی ضرورت کیا تھی۔ پھر آپ نے دیکھ لیا کہ میں نے آپ کے بہانے پرانی یادوں کا وہ حصہ چھیڑ لیا جس کا امریکن سنٹر لاہور سے تعلق تھا۔ میں مانتا ہوں آپ کے نام اس تحریر کا بنیادی مقصد آپ سے کچھ انتخابی نوعیت کے سوالات پوچھ کر ان کا جواب حاصل کرنا تھا۔ صرف دوست ہونے کے ناتے نہیں بلکہ فلسفیانہ انداز کے سیاسی اور سماجی امور کے ایک متوازن اور مدلل تجزیہ نگار کے طور پر، بات لمبی ہو گئی تو اس کے دو حصے کرنے پڑ گئے اور دوسرا یا آخری حصہ چھپنے کے وقت 8 فروری کا انتخابی دن قریب آ گیا اس لئے سوالات کا معاملہ ترک رہا ہوں کہ اب ان کا فائدہ نہیں رہا، جو بھی ہونا ہے اس کا نتیجہ سامنے آ جائے گا اور سب سوالوں کا جواب خود ہی مل جائے گا۔
تو اس تحریر میں امریکن سنٹر سے متعلق پرانی یادوں کی طویل داستانوں سے جو کچھ بھی یاد آئے گا اس کا چیدہ چیدہ حصہ آپ کو سناتا ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کو کچھ باتیں اس طرح نہ معلوم ہوں جیسی وہ تھیں کیونکہ ہو سکتا ہے آپ نے میری آپ بیتی پر میری طرح غور نہ کیا ہو۔ عجیب بات ہے کہ آپ، شفیق جالندھری اور شعیب اور چند اساتذہ کے علاوہ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے ساتھیوں میں سے کسی کا مجھ سے امریکن سنٹر کے دور میں زیادہ واسطہ نہیں رہا۔ مطلب یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کے بہت دوستوں سے تعلق برقرار رہا لیکن امریکن سنٹر کے اندر ان کا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔
آپ کے علاوہ صرف سید گلزار مشہدی ایسے تھے جن کا ایک دو معاملات کی وجہ سے امریکن سنٹر آنا جانا رہا۔ ان سے متعلق ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے۔ تب نوازشریف پنجاب کے وزیر خزانہ تھے اور گلزار مشہدی اس وقت ان کے پی آر او تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ان کے لاڈ کے نام سے انہیں نہیں بلا رہا جس سے وہ آج بھی معروف ہیں۔ ہوا یوں کہ اتنی بے تکلفی کے باوجود چند سال پہلے انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا کہ اب میں بڑا ہو گیا ہوں اس لئے مجھے گلزار مشہدی کے نام سے ہی بلاؤ۔ لاڈ کے نام سے بلانے کی میری اجازت ختم ہو گئی اس لئے میں ان کے اصل نام سے ہی بلا رہا ہوں۔
انہوں نے مجھ سے تقاضہ کیا کہ امریکن سنٹر میں آئے دن کتابوں یا آرٹ کے حوالے سے نمائشیں ہوتی رہتی ہیں کوشش کرو کہ کسی نمائش میں نوازشریف کو مہمان خصوصی بنا دو۔ میں نے کہا کہ میرا تو پریس سیکشن ہے اور یہ معاملہ کلچر سیکشن کا ہے۔ تاہم انتظامی اجلاسوں میں سب شرکت کرتے ہیں اور کوئی موقع بنا تو مشورہ دے دوں گا۔ مختصر یہ کہ مجھے کامیابی ہو گئی اور ایک نمائش کے لئے میاں نوازشریف کو مہمان خصوصی کے طور پر بلانے کا میرا مشورہ قبول ہو گیا۔
نمائش کی تقریب ہو گئی۔ اختتام کے بعد میں اور گلزار مشہدی (Reception Desk) کے ایک طرف کھڑے تھے کہ نوازشریف کی باہر جاتے ہوئے گلزار پر نظر پڑی۔ انہوں نے اشارے سے انہیں بلایا اور جاتے جاتے ان کے کان میں کچھ کہا۔ گلزار مشہدی نے واپس میرے پاس آکر میرے اصرار پر مجھے بتا دیا کہ ان کے کان میں کیا کہا گیا جو میں نہیں بتا سکتا۔ گلزار مشہدی جلدی ناراض ہو جاتا ہے اس لئے وہ ذاتی بات کا حوالہ مجھ سے سن کر مزید ناراض نہ ہو جائے۔ گلزار مشہدی چاہتا تو میاں نوازشریف کے اس ”محسن“ سے ان کا تعارف کرا دیتا کہ جن کے سبب وہ مہمان خصوصی بنے تھے۔ اس طرح گلزار مشہدی نے میاں نوازشریف کو میاں اظہر زمان سے ”ممنونیت کا ہینڈ شیک“ کرنے سے محروم کر دیا۔
البتہ میرا شہباز شریف سے نیویارک میں ایک دلچسپ انداز سے ہینڈ شیک ضرور ہوا۔ وہ اپنی جلا وطنی کے دور میں شاید قانونی مشوروں کے لئے سعودی عرب سے امریکہ آئے تھے۔ نیو یارک میں مسلم لیگ نون کی بہت منظم شاخ تھی انہوں نے ایک ہوٹل میں ان کے استقبالیہ کا اہتمام کیا میں ان دنوں نیو یارک میں تھا اور میڈیا کے حوالے سے مدعو تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ گاڑی سے اترے اور میں بالکل سامنے کھڑا تھا۔ ان کی مجھ پر نظر پڑی تو میں بھی ایک قدم بڑھا اور ان سے ہینڈ شیک ہو گیا۔ میں نے ان کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان سے پاکستان میں سرسری سا چند ایک دفعہ ملنا ہوا لیکن باقاعدہ تعارف نہیں تھا۔ میں نے ان کا تجسس ختم کیا۔ انہیں بتایا ہمارا ایک بہت اہم مشترکہ دوست ہے۔ شعیب بن عزیز میرا بہت گہرا دوست ہے جو آپ کا بھی اچھا دوست ہے (وہ ان کے قریبی میڈیا ایڈوائزری گروپ میں شامل تھا اور بیورو کریٹ ہونے کے باوجود ان سے دوستی بھی تھی) شعیب کا نام سن کر ان کی آنکھوں میں چمک آئی اور کہنے لگے کہ آپ نے درست کہا کہ وہ ہمارے بہت اچھے مخلص دوست ہیں۔ جاتے جاتے انہوں نے کہا کہ تقریب ختم ہونے پر مزید بات ہو گی۔ اور ایسا ہی ہوا وہ کھانے کے لئے اس اٹارنی کی ٹیبل پر بیٹھے جن سے انہوں نے قانونی مشورے لینے تھے۔ وہ اٹارنی میرے بھی دوست تھے جب ضروری مشورہ ختم ہو گیا تو ان اٹارنی نے مجھے بلا کر اس ٹیبل پر میری جگہ بنا دی۔ اس طرح میاں نواز شریف سے تعارف مزید گہرا ہو گیا۔
مجاہد صاحب! مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں آپ جیسے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں البتہ پروفیسر صاحب ویسے نہیں رہے۔ (شفیق جالندھری اب ڈاکٹر ہیں اور جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں لیکن میں صرف ان کو لاڈ میں پروفیسر صاحب کہہ کر پکارتا ہوں) لاہور آؤں تو شفیق جالندھری کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ن کو یاد نہ دلایا جائے تو وہ ملاقات کا وعدہ بھول جاتے ہیں۔ البتہ وہ ہمیشہ کی طرح جن ایک دو تنظیموں سے منسلک ہیں ان کے ہفتہ وار اجلاسوں میں شرکت اور ان کا انتظام کبھی نہیں بھولتے اور اب ایک آخری بات ہارون رشید کے بارے میں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں سید عباس اطہر (شاہ جی) کی شخصیت سے بہت متاثر ہوں۔ ذاتی یا ٹریڈ یونین کی سطح پر جب بھی ضرورت پڑی میں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ میں صرف ایک معاملہ مختصراً بتانا چاہوں گا میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا جوائنٹ سیکریٹری تھا۔ انہوں نے سوچا مگر مجھ سے براہ راست تقاضہ نہیں کیا کہ اگر میں اس عہدے سے احتجاجاً مستعفی ہو جاؤں تو اس کا برنا گروپ کو نقصان اور انہیں فائدہ پہنچے گا۔ مجھے علم ہوا تو سوچ لیا کہ ایسا ہی کروں گا۔ انہوں نے مجھ سے یہ کام کرانے کے لئے ہارون رشید کی ڈیوٹی لگائی جو دو تین دن ہمہ وقت میری خاطر کرتا رہا میں دل میں ہنس رہا تھا کہ جس کام کے لئے وہ اتنی محنت کر رہا ہے اس کے لئے میں پہلے سے ہی تیار ہوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ ہارون رشید کو اس کا کریڈٹ مل گیا۔ میرا اور ہارون کا ہم دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ امریکن سنٹر میں بھی یہ سلسلہ اری رہا جہاں وہ بیشتر وقت گزارتا تھا۔ پھر ایک دن وہ ایک معمولی سی بات پر ناراض ہوا اور اٹھ کر چل پڑا۔ پھر ساری دوستی ختم ہو گئی۔ اب رسمی تعلق باقی ہے۔ میں چند دن خوب رویا۔ وہ بھی رویا ہوگا۔ لیکن پھر زندگی معمول پر آ گئی۔ یہ کہانی ہے دیئے کی اور طوفان کی۔