وزیراعلیٰ کی کارکردگی! مگر اک نظر اِدھر بھی؟

  وزیراعلیٰ کی کارکردگی! مگر اک نظر اِدھر بھی؟
  وزیراعلیٰ کی کارکردگی! مگر اک نظر اِدھر بھی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ سطور آج سفر کرتے ہوئے ہنگامی حالات میں تحریر  کرنا پڑ رہی ہیں آج ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے عام چھٹی ہے تاہم ہمارے بازار کھلے ہیں کہ دکاندار ایک دن کی بندش کا نقصان برداشت نہیں کرتے۔اگرچہ ان کو ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی کے خلاف یا کسی اور وجہ سے شٹر ڈاؤن کرنا پڑے تو کوئی فکر نہیں ہوتی کہ بڑے فائدے کے لئے چھوٹا نقصان برداشت کرنا ہوتا ہے،بڑی مارکیٹوں والوں کا شکریہ کہ ان سب نے مارکیٹیں بند رکھیں اور احتجاج میں حصہ بھی لیا۔بہرحال بچوں کی ضد سے ان کے ساتھ نکلنا پڑا تو آج ذرا غور سے دیکھا  بازار کھلے کھلے اور سڑکیں صاف تھیں۔پتہ چل رہا تھا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوا ہے۔گذشتہ شب کریم بلاک مارکیٹ جانا ہوا تو برآمدے بھی صاف تھے اور پارکنگ کے لئے بھی جگہ مل رہی تھی اگرچہ پارکنگ  کے وقت ایک وردی والا جن برآمد ہوا اور گاڑی کا نمبر لکھ کر ٹوکن حوالے کر دیا البتہ فرق یہ تھا  کہ واپسی کے وقت فیس صرف30روپے وصول کی گئی، 50 روپے والی رنگ بازی نہیں تھی، مجھے شبہ ہوا کہ دو نمبری نہ ہو تو چیک کیا۔ جیکٹ اور رسید کمپنی کی تھی اب یہ کام متعلقہ حکام کا ہے کہ وہ ادھر بھی نظر رکھیں۔

میں نے اپنی رپورٹنگ کے دور میں طویل عرصہ تک بلدیات کی بیٹ بھی کی اور خبریں تلاش کر کے چھپواتا رہا،ہر دور میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع ہوئی اور ناکام ہو جاتی تھی کہ تجاوزات کے بانی اور ذریعہ تو خود بلدیاتی اراکین ہیں، لیکن اِس بار جو مہم شروع ہوئی اس کے حوالے سے ہر شہر سے تعریف ہو رہی ہے شکایت البتہ یہ ہے کہ اکثر بازاروں سے ہٹائے جانے والے ریڑھی بان بیروز گار ہو رہے ہیں اگر چہ یہ عارضی تجاوز والے بہت بڑی رکاوٹ ہیں لاہور میں تو ملتان روڈ اور بعض دوسرے علاقوں میں ان کے لئے کھو کھا بازار بنا دیئے گئے ہیں،لیکن آسان روز گار کے سبب ابھی تک ان کی مکمل بحالی نہیں ہوئی اور یہ لوگ موقع تلاش کر کے اپنی  روزی کمانے کی فکر کر رہے ہیں،اِس لئے یہ کام بھی باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہونا چاہئے اس سے دُعائیں بھی ملیں گی۔

یہ تعریف کا کام ہے اور اگر سہیل  جنجوعہ صاحب نہ بھی کہیں  تو ہم کبھی بخل سے کام نہیں لیتے کہ کام خود بولتا ہے اور بول رہا ہے تاہم بُرا نہ منایا جائے تو ذرا دودھ میں مکھی والا کام بھی کر لیا جائے کہ ہر برے کے ساتھ اچھا اور اچھے کے ساتھ بُرا بھی ہوتا ہے۔میرا ذاتی تجربہ شاہد ہے کہ لاہور میں نہ صرف عارضی بلکہ پختہ تجاوزات کے ذمہ دار بھی ایل ڈی اے اور بلدیہ کے ملازم ہیں جو رشوت لے کر کام کرواتے ہیں۔ایل ڈی اے نے تو تجاوزات باقاعدہ اجازت دے کر کرائیں کہ مختلف آبادیوں کی سڑکوں والے دونوں اطراف کمرشل بنا دیئے اور رشوت کے علاوہ فیس بھی وصول کی اور جب یہ علاقے کمرشل کر دیئے تھے تو پھر دکانیں بنیں اور تاجروں نے ان کے آگے عارضی تجازات کرا کے منافع حاصل کرنا شروع کر دیا۔اب وہی احتجاج بھی کر رہے اور ایل ڈی اے تجاوزات کے خلاف مہم میں امتیاز برت رہی ہے۔مصطفےٰ ٹاؤن کی مرکزی سڑک پر ایک پلازہ زیرتعمیر ہے ان مالکان نے ساری گرین بیلٹ کو  کور کر کے سیمنٹ سے پلستر کر دیا ہے۔دو روز قبل ایل ڈی اے کے اینٹی تجاوزات عملے نے ا س   سے ملحق گرین  بیلٹ سے فروٹ والوں کو اٹھا دیا اور جگہ صاف کرا دی،لیکن اس پختہ تجاوز پر کسی نے نظر نہ ڈالی اور نظر انداز کر کے چلے گئے،اس سلسلے میں عرض کروں کہ عارضی تجاوزات جو عموماً ریڑھیوں پر مشتمل ہیں صرف ایل ڈی اے اور بلدیہ ہی کی شکار نہیں ہیں بلکہ پولیس کے بھی وارے نیارے ہیں وہ نہ صرف ریسٹورنٹوں سے مفت کھانا منگواتے اور کھاتے ہیں،بلکہ بھتہ بھی لیتے ہیں۔ یہ سب تحقیق کا کام ہے اور فالو اپ میں ان اہلکاروں کو بھی سدھارنا ہو گا۔بڑے مقصد کے لئے بڑا کام کرنا ہوتا ہے اور ہو رہا ہے لیکن مستقل حل کے لئے احتساب لازم ہے کہ تجاوزات کے ذمہ دار اہلکار کٹہرے میں لائے جائیں ورنہ  یہ سلسلہ پھر شروع ہو سکتا ہے۔

وزیراعلیٰ مریم نواز اپنے والد کی نگرانی میں زیادہ سے زیادہ عوامی مفاد والے منصوبوں کا اعلان کرتی چلی جا رہی ہیں اکثر شروع کر دیئے گئے ہیں اور نتائج بھی بہتر ہیں لیکن اس سے ان کو شہرت تو یقینا ملی اور تعریف بھی ہو رہی ہے لیکن یہ امر نوٹ کرنے کا ہے کہ براہ راست عام آدمی کو وہ ریلیف نہیں مل رہی جو اس کا حق اور اس سے تعریف کرانے والا ہے۔ میرا مطلب سیدھا سادا ہے، بجلی،گیس اور پانی کے نرخ ناقابل قبول حد تک زیادہ ہیں۔وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے اور سنگل ڈیجٹ پر آ گئی،بازار میں دالیں،مصالحے،سبزیاں اور فروٹ سستے نہیں ہوئے، بلکہ ایک دکاندار کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل کچھ زیادہ خریداری کر لو کہ تاجر مافیا سرگرم عمل ہے۔سرد خانے اور گودام صاف ہو رہے ہیں اور معمول کا کام جاری ہے۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ اب تک اس مافیا کو قابو کرنے میں ناکام نظر آئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ضرورت اور پیداوار کے ساتھ ساتھ ان حضرات پر بھی نظر رکھی جائے، رمضان پیکیج اور رمضان بازار والی ریلیف کی بھی حد ہے اس لئے جب تک رسد بحال نہیں کی جائے گی صارف کے مسائل کم نہیں ہوں گے۔انتظامیہ کو برانڈڈ اشیاء سے کام شروع کرنا چاہئے اور رسد کا باقاعدہ حساب کر کے بحالی  ضروری ہے۔

یہ چند گذارشات عوامی مسائل ہیں اکثر مسائل معمولی اقدامات سے حل ہو سکتے ہیں ان پر نظر ضروری ہے کہ اچھے کام زیادہ تعریف کے قابل ہوں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -