خواہ تمہیں چین جانا پڑے

خواہ تمہیں چین جانا پڑے
خواہ تمہیں چین جانا پڑے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی نئی وفاقی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان کا پاکستان کے دیرینہ دوست اور عظیم ہمسائے عوامی جمہوریہ چین کا پہلا دورہ وطن عزیز کو درپیش موجودہ چیلنجوں کے علاوہ تیزی سے بدلتے ہوئے بین الاقوامی اور علاقائی حالات کے تناظر میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کے ذمہ داران چین کی دانشمند،تجربہ کار اور مدبر قیادت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں خاص کر کرپشن سے پاک معاشرے کا وجود کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان اگرچہ پچھلے کئی عشروں سے دوستی اور قربت کے نہایت گہرے اور مخلصانہ رشتے قائم ہیں لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکی پالیسی سازوں نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے پوری دنیا پر واحد سپر پاور کی حیثیت سے اپنے تسلط کا جو خواب دیکھا ، اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات نے چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کی ناگزیر ضرورت بنادیا ہے۔

امریکہ افغانستان اور پھر عراق میں فوجی مداخلت کرکے ، بھارت کو خطے کا ’’چوہدری‘‘ بنانے کی حکمت عملی اپنا کر اورمشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بے جا پشت پناہی کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ جبکہ چینی قیادت نے انتہائی فراست سے کام لیتے ہوئے اپنی معاشی اور فوجی طاقت میں مسلسل اور ہموار اضافہ کرکے امریکہ کی عالمی بالادستی کی خواہش کے آگے ایک مضبوط بند باندھ دیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کی بیجنگ میں چینی ہم منصب ’’لی کی چیانگ ‘‘سے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر ہونیوالے مذاکرات میں دو طرفہ تعاون کے پندرہ معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بلاشبہ خوش آئند پیش رفت ہے۔دونوں ممالک کے درمیان جن معاہدوں پر دستخط کیے گئے ان میں چین کی اکیڈمی آف سائنسز اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان اور چین کی سائنس اکیڈمی، اسلام آباد پولیس اور بیجنگ پولیس کے درمیان تعاون، زراعت اور اقتصادی و تکنیکی تعاون سے متعلق معاہدے شامل ہیں۔

مفاہمت کی جن یادداشتوں پر دستخط ہوئے ان میں پاک چین وزرائے خارجہ کی سطح کے تزویراتی مذاکرات، پاکستان سے غربت کے خاتمے اور جنگلات، ارضیات سائنس اور الیکٹرونکس مواد کے تبادلے سے متعلق مفاہمت کی یادداشتیں شامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ چین کے تعاون سے پہلا پاکستانی 2022 میں خلاء میں بھیجا جائے گا ۔چین نے سی پیک منصوبوں میں کمی نہ کرنے اور اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لئے مالی امداد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تاہم اس کی تفصیلات پر مزید بات چیت کی ضرورت کا اظہار کیا ہے جو پوری طرح قابل فہم ہے لیکن یہ توقع بے جا نہیں کہ یہ مرحلہ بھی جلد طے ہوجائے گا تاکہ پاکستان مالی وسائل کی قلت کے مسئلے سے جلد نمٹ کر معاشی بہتری کے لئے کلیدی اور پائیدار اقدامات شروع کرسکے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق رواں ہفتے اسلام آباد پہنچ رہی ہے، جہاں چین کے مالی تعاون کا اعلان واضح کرے گا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے کتنا قرضہ درکار ہوگا اور اس کی شرائط کیا ہوں گی تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاشی مشکلات سے نمٹنے میں چین کا تعاون پاکستان کے لئے بہت مددگار ثابت ہوگا۔معاہدے اور دستخط اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے قومی لباس میں چائنا کا دورہ کرکے ایک نئی مثال قائم کی ہے ،

اس سے پہلے بہت سے سربراہان پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے چائنا گئے لیکن وہ مغربی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے عمران خان کی قائم کی گئی اس نئی روائت نے دُنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کر دیئے ہیں ، کیونکہ جرمن ، جاپان ، امریکا ، چائنا ء اور دوسرے کئی ممالک کے سربراہان یا نمائندے دُنیا کے بڑے سے بڑے پلیٹ فارمز پر تقا ریر اپنی قومی زبان میں کرنا فخر سمجھتے ہیں۔بین الاقوامی طور پر وزیر اعظم پاکستان کے دورہ چین کو کامیاب قرار دیا گیا ہے جبکہ پاکستان کے قومی ٹی وی چینل نے اس دورہ کی کوریج کرتے ہوئے سارا معاملہ ہی چوپٹ کرکے رکھ دیا ہے ، قومی چینل نے وزیر اعظم کی لائیو تقریر کے دوران سکرین پر بیجنگ کے سپیلنگ کو ’’ بیگنگ ‘‘ ( Begging ) لکھ دیا جو یقیناً غلطی ہے لیکن وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو اس بہت بڑی غلطی کا نوٹس لینا چاہیئے کیونکہ پوری دُنیا عمران خان کی لائیو تقریر دیکھ رہی تھی ،

ویسے بھی اپوزیشن کی جماعتیں عمران خان کے اُن دوروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں جن کا مقصد دوسرے ممالک سے قرضے مانگنا ہے ۔عمران خان دورہ چائناء پر ہیں اور پاکستان کی سڑکوں پر گاڑیوں کو جلایا جا رہا ہے ، آسیہ بی بی کی موت کی سزا معاف کرنے کے معاملے پر پاکستان کے علماء سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور دھرنوں میں آسیہ بی بی کی رہائی پر سیخ پا ء مظاہرین اپنے ہی بھائیوں کی گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، ہر پاکستانی اپنے نبی ﷺ کی شان کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کر سکتا ہے لیکن اپنے بھائیوں کا نقصان کرکے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ ایسا کرنے سے رہائی کا فیصلہ سنانے والوں یا حکومت کو کیا فرق پڑا ہے؟ اب اُس نقصان کا ذمہ دار کون بنے گا ؟ اگر علماء کوپانچ نکاتی ایجنڈے کے تحت معاہدہ ہی کرنا تھا تو تور پھوڑ کے بغیر بھی یہ معاہدہ کیا جا سکتا تھا ،

خیر وقت گزر گیا لیکن آج بھی سڑکوں پر جلائی جانے والی گاڑیوں اور تباہ ہونے والی املاک میں سے اُٹھتا ہوا دھواں ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے نبی ﷺ سے ہمیشہ محبت کرنی ہے لیکن ہمیں وہ باتیں بھی ماننی ہیں جو ہمارے آقا نے ہمیں زندگی گزارنے کے لئے فرما ئی تھیں ۔وزارت داخلہ اور قانونی اداروں نے ہنگامے کرنے والوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے اور فوٹیج کے ذریعے گرفتاریاں توکی جا رہی ہیں لیکن ایسے معاملات کا باقاعدہ سد باب کرنا انتہائی ضروری ہے جس کے لئے حکومت کو پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی ۔سوشل میڈیا پر یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ جس آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ سن کر عوام احتجاجاً سڑکوں پر نکلی تھی وہ پاکستان میں ہے بھی یا نہیں ؟ کہا جا رہا ہے کہ آسیہ بی بی کو پاکستان سے با حفاظت کسی دوسرے ملک پہنچا دیا گیا ہے اوراُس کی بے گناہی کا فیصلہ بعد میں سنایا گیا ہے ، خیر یہ تو سوشل میڈیا کی باتیں ہیں ان میں کتنی حقیقت ہے یہ تو پاکستان کے سیکیورٹی ادارے یا جیل حکام ہی بہتر جانتے ہیں ۔

مزید :

رائے -کالم -