جھوٹ کے بازار میں سچائیاں ملتی نہیں۔۔۔

آج اک آواز پھر دل کے مکاں سے آ گئی
اتنی ویرانی مرے دل میں کہاں سے آ گئی
خانہِ دل میں ہر اک جانب اجالا ہو گیا
روشنی کی اک کرن جب لا مکاں سے آ گئی
جھوٹ کے بازار میں سچائیاں ملتی نہیں
میری خودداری پلٹ کر ہر دکاں سے آ گئی
سہمی سہمی سی کلی ہے پھول پتے ہیں اداس
وہ تباہی آج پھر دورِ خزاں سے آ گئی
کیسے الفت کے چراغوں کو بھلا روشن کروں
تیرگی نفرت کی دل میں جب گماں سے آ گئی
جانے کب تکمیل تک پہنچے گی اس کی آرزو
لوٹ کر فریاد پھر صحنِ بتاں سے آ گئی
گفتگو کرنے کا تب سے ہی سلیقہ آ گیا
جب سے شیرینی ذرا اردو زباں سے آ گئی
شہر میں ہے بھیڑ ان کی آج ہر سو دیکھیے
کتنی نفرت شرپسندوں کے بیاں سے آ گئی
بڑھتے رہنا ہے سدا منزل کو پانے کے لئے
اک حرارت مجھ میں بھی دورِ رواں سے آ گئی
دل کہیں بھی ایک پل کو اب ٹھہرتا ہی نہیں
جستجوئے خاک منزل کے نشاں سے آ گئی
آج منظر میں بھی اپنی آخری منزل پہ ہوں
زندگی میری نکل کر جسم و جاں سے آگئی
کلام :منظر اعظمی ( بھارت )