شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 52
شیر جنگل کا حکمران ہے اور سارے درندوں سے زیادہ قوی ہو تا تھا۔سور کے علاوہ کوئی جانور اس پرحملہ نہیں کرتا۔ریچھ کبھی کبھی بھڑ جا تاہے۔لیکن صرف اس صورت میں کہ شیر قریب آ پہنچے اور ریچھ کے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔۔
ایسی حالت میں شیر کا محتاط ہونا بالکل غیر ضروری ہے۔وہ تو شاہانہ وقار اور دبدبے کے ساتھ جنگل میں گھومتا ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔۔۔لہذا اسے دبک کر،چھپ کر،چوکنا ہوکر چلے جانے کی کیاضرورت ہے؟
شیرکی یہ حرکت ہی اس پر شبے کا باعث بنی اور میں نے دور بین رکھ کر رائفل اٹھا لی۔اچھا بڑا شیر تھا۔۔۔میں تین راتیں مچان پر گزارکر کچھ جھنجھلا بھی گیا تھا۔۔۔وہ پانی کی طرف بڑھا چلاجا تا تھا۔لیکن اس کے انداز میں وہی روبا ہی اور غیاری تھی،جس کا میں تذکرہ کر چکاہوں ۔۔سر جھکا ہو ااگلے پیروں میں خم،پشت اور شانے خمیدہ اوردم ساکت یہ سارا انداز ایسا تھا جیسے کوئی خطرہ درپیش ہو۔اس وقت تو میں نے اسکے متعلق یہی رائے قائم کی کہ غالباً اس پر کوئی شکاری مچان پر سے فائرنگ کر چکا ہے اور وہ ہتھیاروں کی ہلاکت خیر قوت کا اندازہ رکھتا ہے اور ایک دفعہ اس نے سر اٹھا کر درختوں کی طرف بھی دیکھا تھا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے اسے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔رائفل کا سیفٹی کیچ کھلا۔۔۔سیدھے ہاتھ نے بلا ارادہ کندے کی گرفت کو تھاما۔۔الٹا ہاتھ خود ہی نال کے نیچے صحیح جگہ پر آگیا۔۔
اور جسم کا ہر عضو اپنا کام کرنے پر آمادہ کرنے پر آمادہ ہو کر ذہن کے برقی اشارے کامنظر ہو گیا۔شیر اس وقت پانی پر پہنچ چکا تھا۔اس نے سر جھکا کر جلدی جلدی پانی پیا۔۔۔دو چارمنٹ انتظار کیااور پھر جانے کیلئے گھوما۔یہی اس کاآخری وقت تھا۔
میں نے رائفل کو جنبش دی۔۔۔رائفل شانے پر آئی اور رخسار کندے پر جم گیا۔۔۔نظر دید بان اور شیر کو ایک لائن میں لائی،سانس رکی اور ٹریگر کے گرد کلمے والی انگلی کو دباؤ بڑھتے ہی تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم کی طاقت ور رائفل کا جھٹکا محسوس ہوا۔
دھماکے سے رات کے اندھیرے اور خاموشی میں ڈوبا ہوا جنگل گونج اٹھا اور اس کے ساتھ ہی شیر کئی فٹ اونچا اچھلتا نظرآیا۔۔ایک زبردست دہاڑ کی آواز سے جیسے زلزلہ آگیا۔۔۔
لیکن یہ اسکی خون خوار کی حلق سے نکلی ہوئی آخری آواز تھی۔اچھلنے کے بعد وہ زمین پر گرا تو تین سو گرین کی نرم سیسے کی گولی اس کے دل میں اتر کر کام کر چکی تھی۔۔پھر اس نے کوئی جنبش نہیں کی۔تاہم دیر تک رائفل لئے دوسرے فائر کیلئے تیار بیٹھا رہا۔
نصف گھنٹے کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں کو آوازیں دیں۔فوراً ہی ساری مچانوں پر لالٹین روشن ہو گئیں اور ہم لوگ راستوں کی سیڑھیوں کی مدد سے نیچے اتر پڑے۔۔
’’ارے !۔۔۔یہ تو جھومری کا آدم خور ہے۔۔۔؟‘‘ایک شخص نے متعجب ہو کر کہا۔
’’جھومری کا آدم خور۔۔۔؟‘‘حیرت سے میری چیخ نکل گئی۔میں نے شکر ادا کیا کہ چلو خلاصی تو ہوئی ۔
لنگڑاآدم خور
جی،آئی،پی ریلوے لائن پر بھوپال سے جھا نسی کی طرف جاتے ہوئے پہلا ریلوے اسٹیشن سوکھی سوئیاں کا ہے۔آبادی اسٹیشن سے تین میل دورہے۔سوکھی سوئیاں کا ریلوے اسٹیشن چوبیس گھنٹوں میں صرف دو مرتبہ کسی قدر زندگی سے آشنا ہوتا ہے۔جبکہ بمبئی سے آنے والی اور بمبئی جانے والی پسنجر ٹرینیں گزرتی ہیں،نہ ایکسپریس۔۔۔
اسٹیشن کاعملہ بھی صرف چھ آدمیوں پر مشتمل ہے۔جن میں دو سب اسٹیشن ماسٹر،دو سگنل مین اور دوخلاصی ہیں۔
اسٹیشن ماسٹر،سوہن لال روانہ صبح طویل چہل قدمی کا عادی تھا۔ابھی روشنی بھی نہ ہوتی کہ وہ ایک ہاتھ میں پیتل کی جگمگاتی لٹیا اور دوسرے میں چھڑی لئے گھر سے برآمد ہوتا اور ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بھوپال کی طرف دو تین میل دور نکل جاتا۔یہاں حوائج ضروری سے فراغت کے بعد ایک چشمے کے کنارے غسل کرتا۔پھر طلوع ہوتے ہوئے سورج کو پوجا کرنے کے بعد اسٹیشن واپس آجاتا۔
سب اسٹیشن ماسٹر نے بار بار اسے منع کیا تھاکہ جنگل میں نہ جایا کرے،کیونکہ سوکھی سوئیاں ریلوے اسٹیشن کے چاروں طرف گھنے جنگل،پہاڑاور وادیاں،شیر،چیتوں اور دوسرے درندوں سے بھری ہوئی تھیں،لیکن سوہن لال صبح کی سیر کو عادی تھا۔وہ اپنی عادت کیسے بدل دیتا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
گرمیوں کی ایک صبح کو ڈیوٹی ختم کر کے سوہن لال گھر گیا اور زرا دیر ہی پیتل کی لٹیا لے کر ریلوے لائن کے کنارے کنارے سیر کیلئے جل دیا۔جس چشمے پر وہ غسل کرتا تھا،وہ اسٹیشن سے پورے تین میل کے فاصلے پر ہے اور ایک گھنے جنگل سے ڈھکے ہوئے طویل پہاڑی سلسلے کے عین کنارے واقع ہے۔ریلوے لائن سے دو گز کے فاصلے پروہ ایک جگہ تھی،جہاں سو ہن لال روزانہ غسل کرتا تھا۔
اس روز سوہن لال واپس نہیں آیا۔سب کو تشویش ہوئی۔آخر ایک خلاصی گاؤں جا کر چھ سات آدمی لے آیا جو کلھاڑیوں سے مسلح ہو کر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ اسٹیشن ماسٹر کو تلاش کرنے نکے۔دونوں خلاصی بھی ساتھ تھے۔یہ لوگ لائن کے دونوں طرف نشانات تلاش کرتے جا رہے تھے۔(جاری ہے )