شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 51
تین چار منٹ تک تو یہ مادہ اسی طرح کھڑی رہی ۔پھرتالاب کی طرف پلٹ کر پانچ چھ قدم چلی ۔یہاں دو منٹ ٹھہر کر بغور چاروں طرف دیکھنے اور اطمینان کر لینے کے بعد پہلی جگہ پر واپس گئی اورہلکی سی ایک آواز نکالی ۔اس آواز کے ساتھ ہی بے شمار سانبھروں کے سر جھاڑیوں میں سے نکل آئے۔لیکن آگے کوئی نہیں بڑھا۔اس کے بعد مادہ پھر تالاب کی طرف پلٹی۔لیکن اس طرح کہ ہر قدم نپاتلا،جسم اچانک بھاگنے کے لیے تیار اور مستعد،کان کسی آہٹ کو سننے کے لیے برابر متحرک ۔اس ہوشیاری کے ساتھ وہ کوئی دس گز بڑھی اور ذرا دیر ٹھہر کر اسی ہئیت سے چاروں طرف بغور دیکھتی رہی۔
جب اس نے خوب اچھی طرح اطمینان کرلیا تو پھر ویسی ہی ایک آوازنکالی ،جس پر جھاڑیوں میں سے تیس چالیس سانبھر نکل کر اس مقام تک آگئے ،جہاں یہ مادہ پہلے ہی ٹھہری تھی ۔۔۔۔۔یہ سانبھر بھی بالکل چوکنّے اور ہوشیار تھے۔۔۔۔اب وہ بوڑھی مادہ اسی طرح دیکھتی بھالتی بیس پچیس گز اور آگے بڑھی۔ٹھہر کر اطراف کا جائزہ لیا اور پھر وہی آواز کا اشارہ کیا۔سانبھر جس کی آواز سن کر اور آگے بڑھ آئے۔۔۔اس طرح مادہ کے درجہ بدرجہ بڑھنے کا سلسلہ پانی تک جاری رہا اور سانبھر مذکورہ طریقے سے اس خرّانٹ کے اشاروں پر عمل کرتے رہے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پانی پر پہنچ کر مادہ نے دو چار گھوٹ پانی پیا۔ اس کے بعد سراٹھاکر بغور چاروں طرف دیکھا۔سارے سانبھر ان بڑی بی سے کچھ سے فاصلے پر صبرکے ساتھ کھڑے تھے۔ان میں نر کوئی نہ تھا۔سب مادائیں تھیں۔اب بڈھی نے ایک کے بجائے دو آوازیں نکالیں۔ان آوازوں کو سنتے ہی دائیں تو کنارے پر آکر رک گئیں اور نر سانبھر جھاڑیوں میں سے نکل کر بے فکری سے پانی کے اندر تک گھستے چلے گئے جیسے ان کو اپنی محافظ مادہ پر اتنا اعتماد تھا کہ کسی مزید احتیاط کی ضرورت نہیں تھی۔
اب ان کا نظم و ضبط ختم ہوگیا تھااور وہ بڑی بے ترتیبی سے ایک دوسرے کو ٹھیل کر اور ہٹاکر پانی پی رہے تھے۔بڈھی مادہ اب بھی سر اٹھاکر چاروں طرف دیکھتی اورنگرانی کرتی جارہی تھی۔ان سانبھروں میں کوئی بھی بڑے سینگوں والا جانور نہیں تھا۔
پندرہ بیس منٹ تک پانی پینے کے بعد یہ منداواپس ہوا۔بڈھی نگران آگے آگے چل کر بغیر رکے جھاڑیوں میں داخل ہو گئیں اور باقی سانبھربھی تیز تیز چلتے اس کے پیچھے جھاڑیوں میں چلے گئے۔
اس کے بعد تالاب پر آنے والے جانوروں کی تعداد کم ہو گئی۔اکا دکا چیتل اور بڑے سانبھر تین بجے صبح تک آتے اور پانی پیتے رہے۔لیکن جس چیتل کی تلاش تھی،وہ نہ آیا۔۔۔تین بجے میں نے کمبل اوڑھا اور دلاور کونگرانی پرمامور کرکے مچان پر ہی سو گیا۔
دوسری شام بھی مغرب کی نماز مچان پر ہی پڑھی اور رائفل بھرنے کے بعد دور بین ہاتھ میں لے بیٹھ گیا۔وہ رات بھی اسی طرح گزاری اور گزشتہ رات والا منظر اس رات بھی دیکھا ۔۔۔۔۔لیکن وہ چیتل نہ آیا۔۔۔اس رات تو وہ بڈھا شیر بھی نہیں آیا،جو پہلی رات نظر آیا تھا۔اس دن گیارہ تاریخ تھی۔
تیسری رات چاند کی آب وتاب میں اور اضافہ ہو گیاتھااور میں دو راتیں خراب کرنے کے بعد اب چیتل کی جستجو ترک کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔اس دن میں گاؤں سے عصر کی نماز پڑھ کر ہی رونہ ہو گیااور شام سے پہلے بوہلی تال پہنچ کر مچان پر بیٹھ گیا۔خیال یہ تھا کہ وہ دو راتوں سے چیتل نے پانی نہیں پیا ہے اس لئے اس رات ضرور آئے گا۔مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر میں نے کافی اور بھی کپ رکھ کر تھرمس بند ہی کیا تھا کہ وہی بوڑھا شیر آتا نظر آیا۔وہ کسی فکر یا خدشے کے بغیر سیدھا پانی تک آیا اور بیس منٹ تک پانی پیتا اورکھیلتا رہا،اس کے بعد غالباً شکار کی تلاش میں مغرب کے جنگلوں میں گھس گیا۔اس کے جانے کے بعد دوسرے جانوروں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
گیارہ بجے کے قریب جنوبی سمت کی جھاڑیوں میں سے ایک جوان اور بڑے بڑے گلچھوں والے شیر نے سر نکالا۔۔۔ میں دور بین لگائے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔نظر پڑتے ہی دل میں شوق شکا ر انگڑائیاں لینے لگا۔ذرا دیر بغور چاروں طرف دیکھتا رہا۔پھر جھاڑیوں سے نکل کر سامنے آگیا۔۔۔اور پانی کی طرف آہستہ آہستہ اس طرح بڑھنے لگا۔جیسے بلی دبک دبک کر چلتی ہے۔۔ یہ بات میرے لئے تعجب خیر تھی۔(جاری ہے )