شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 50
چاند کی نو تاریخ کو میں نے اپنا سامان جیپ پررکھا اوردلاور ، کلیا کھیڑی آپہنچا۔قیام اللہ صاحب کو میں نے خط کے ذریعے اپنی آمد سے مطلع کردیا تھا۔اور وہ اس روز میرے منتظر تھے۔قیام صاحب عمر میں مجھ سے بڑے تھے ،لیکن جس بے تکلفی ،خلوص اور شفقت سے وہ پیش آتے،اس نے مجھے بھی ان سے خاصا بے تکلف کردیاتھا۔
قیام صاحب کہنے لگے:
’’اگر دو تین روز یہاں ٹھہر جائیں تو کیسا رہے؟‘‘
’’صرف آپ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کے لیے یا کوئی اور مقصد بھی ہے؟‘‘
’’یہ تو آپ کا گھر ہے۔۔۔مہمانی اور میزبانی کا کیا سوال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا،پیالی طشتری میں رکھی اور میری طرف دیکھا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کلیا کھیڑی سے پانچ میل جنوب کی طرف۔۔۔یا جنوب مشرق کی طرف ۔۔۔جو بوبلی کا جنگل ہے ،وہاں ایک بہت بڑے سینگوں والا چیتل ہے۔۔۔۔۔‘‘
’’میرے خیال میں اس پروگرام کو جھومری سے واپس تک ملتوی رکھا جائے۔۔۔۔‘‘
’’جی،نہیں ۔۔۔۔۔!‘‘ قیام صاحب بولے ‘‘ مناسب موقع یہی ہے۔آپ جھومری بعد میں بھی جاسکتے ہیں۔‘‘
’’سنیے تو۔ ۔۔۔جھومری میں اس موذی نے ایک آفت مچا رکھی ہے۔۔۔۔‘‘
’’یہ سب درست ہے،لیکن تین روز بعد چاند بھی پورا ہوجائے گا۔۔۔۔اس وقت آپ جھومری جاسکتے ہیں۔ابھی تو اس چیتل کو ماریے۔۔۔۔‘‘
ان کے اصرار سے مجبور ہو کر مجھے خاموش ہونا پڑا۔۔۔
قیام صاحب نے بتایا کہ بوبلی کے تالاب پر وہ چیتل پانی پیتا ہے اور بہتر ہوگااگر میں پانی پر بیٹھ کر اسے مارنے کی کوشش کروں۔ میں جانوروں کو پانی پر مارنے کے حق میں نہیں ہوں،لیکن بُرا ہو سینگوں کے لالچ کا کہ میں پانی پر بیٹھنے کے لیے رضا مند ہوگیا۔۔دوسرے ہی روز قیام صاحب نے میرے ملازم کی سرکردگی میں اپنے کچھ آدمی بوبلی تال کے کنارے کسی مناسب درخت پر مچان باندھنے کے لیے روانہ کردیے۔قیام صاحب خود تو میرے ساتھ نہ جاسکے۔البتہ ان کے بھائی میرے ساتھ چلے اور ہم لوگ گھوڑوں پر سوار ہو کر بوبلی تال تک آئے۔میں اپنے ملازم دلاور کے ساتھ شام سے پہلے ہی مچان پر چڑھ گیا۔دوسرے لوگ اطراف کے درختوں کے مچانوں پر بیٹھے۔میرا مچان اتنا وسیع اور آرام دہ تھا کہ ضرورت پڑنے پر میں بہ آسانی اس پر سو سکتا تھا۔
جس درخت پر مچان باندھا گیا تھا وہ پانی سے ساٹھ گز کے فاصلے پر تھا اور اس کے سامنے جنگل تک سو سو ا سو گز کا قطعہ بالکل کھلا ہوا تھا۔میرے سامنے اسی گز پر غربی حصے میں ایک بڑے درخت پر بندھے ہوئے مچان پر قیام صاحب کے چھوٹے بھائی سلام اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھے تھے۔باقی ہمراہ ہی رات گزارنے کے لیے بوبلی چلے گئے جو وہاں سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر تھا۔
مغرب کے وقت تک مور،جنگلی مرغیاں ،بھٹ ،تیتر وغیرہ بکثرت تالاب پر آئے،لیکن اندھیرا ہوجانے کے بعد پورا ماحول خاموش اور افسردہ ہوگیا۔جنگل کے تناور درختوں کا حلقہ بھی اندھیرا ہونے کے بعد سیاہ نظر آنے لگا۔۔۔شام کے سات بجے سے رات کے دس بجے تک چھوٹے بڑے ہر قسم کے درندے پانی پر آتے رہے۔لومڑیاں اور گیدڑ بڑی احتیاط سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پانی پر آئے اور چند لمحوں میں پانی پی کر واپس چلے گئے۔لیکن بھیڑیے،چرخ اور چیتے بے خوفی کے ساتھ آتے اور دس منٹ پانی پی کر واپس ہوجاتے ۔۔۔۔
تالاب کے شمال کی طرف بوبلی کی بستی ہے۔اُدھر سے لومڑیوں اور گیدڑکے سوا کوئی جانور نہیں آیا۔زیادہ تر درندے مشرق کے جنگل اور پہاڑسے یعنی میرے درخت کے قریب سے گزر کر پانی پر گئے اور پانی پینے کے بعد مغرب کی طرف نکل گئے‘ جدھر گھنا جنگل دور تک پھیلا ہوا تھا۔غالباًمشرق کی طرف دن کو رہنے اور مغرب کی طرف رات کو گھومنے اورخوراک حاصل کرنے کے مقامات واقع تھے۔تالاب کے جنوب کی طرف صرف گھنی جھاڑیاں تھیں اور اس کے بعد جنگل۔
جیسا کہ میں نے ابھی تذکرہ کیا،سردیوں کے زمانے میں چاندنی بڑی صاف اور دلکش ہوتی ہے۔اس رات بھی چاندنی خوب چھٹکی ہوئی تھی اور جتنے قطعے کھلے میدان تھے ،وہ سب صاف نظر آرہے تھے ۔میں رات کے شکار میں عام طور سے شیر وغیرہ کے لیے تین سو پچھتر میگنم اور اس سے کم درجے کے جانوروں کے لیے تھرٹی اسپرنگ فیلڈرائفل استعمال کرتا ہوں ۔اس وقت بھی میرے ہاتھ میں تھرٹی اسپرنگ فیلڈ تیار تھی اور تین سو پچھتر میگنم قریب ہی بھری ہوئی رکھی تھی۔
دس بجے کے بعد جنگل میں سناٹا ہوگیااور کوئی جانور نظر نہیں آیا۔گیارہ کے قریب سب سے پہلے آنا والاایک بوڑھا شیر تھا۔یہ سیدھا میرے درخت کے نیچے آکر ٹھہرا اور درخت کے تنے سے جسم رگڑ کر کچھ دیر بلی کی طرح ’’خُر خُر ‘‘ کرتا رہا۔۔۔دلاور نے میرا پیر چھوکر نیچے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ اس بوڑھے شیر کو اگر زیادہ عرصہ زندہ رہنے دیا گیا تو ممکن ہے یہ آدم خور ہوجائے ،لیکن پھر سوچ کر باز رہا کہ اس کی ہلاکت کو قیام صاحب پر چھوڑ دینا بہتر ہے ۔۔۔
شیر ذرا دیر درخت کے نیچے کھڑا رہا، پھر بے فکری ،بے خوفی اور متانت کے ساتھ پانی پر گیااور پھر دوسرے جانوروں کی طرح مغرب کی طرف چل دیا ۔
تالاب چھوٹا تھا اور جگمگاتی ہوئی چاندنی کی روشنی میں ایسا معلوم ہوتا تھا،جیسے قطعہ زمین پر شیشے کا فر ش کر دیا گیا ہو۔ہوا ساکت ہونے کی وجہ سے سطح آب پُر سکون تھی۔شعاعوں کی جگمگاہٹ،کا منظر بھی بہت دل کش ہوگیا تھا۔
شیر کے جانے کے بعد اکّا دُکّا نِیل(روجھ) آئے اور پانی پی کر واپس چلے گئے ۔بارہ بجے کے بعد وہ غیر معمولی اور نایاب منظر شروع ہوا،جس کے نظارے کی تمنا میں شکاری عمریں گزار دیتے ہیں۔میں جب اس درخت کے مچان پر بیٹھا تھا ،اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اس مقام پر زندگی کا سب سے عجیب اور حیرت انگیز منظر دیکھوں گا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ساڑھے گیارہ کے بعد پانی پر آنے والے جانوروں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو گیا ۔اب جانور بڑے بڑے مندوں کی شکل میں آئے۔نیل گائے،سانبھر،بارہ سنگھے،جنگلی بکریاں،چکارے،سب ہی آئے اور بڑی بڑی ٹکڑیوں کی شکل میں دس پندرہ منٹ پانی پر ٹھہر کر واپس چلے گئے۔ان میں بعض مندے غیر معمولی طور پر بڑے تھے ۔میں نے نیل گایوں کے ایک مندے میں اسّی جانورشمار کیے۔شام میں مسلسل دور بین میرے ہاتھ میں تھی اور میں پانی پر آنے والے ہر جانور کو صاف دیکھ رہا تھا۔
تالاب کے جنوب کی طرف جنگل ذرا چھدرا تھااور اس کے آگے جھاڑیاں تھیں۔میں نے یونہی بے خیالی میں ایک دفعہ دور بین سے اُدھر دیکھا۔ایک بوڑھی مادہ سانبھر تالاب کی طرف پشت کیے کھڑی نظر آئی۔اگر چہ چاندنی اس وقت بہت تیز اور صاف تھی اور میری دور بین بھی بہت طاقت ور تھی،لیکن اس مادہ کو دیکھ کر میں یہ فیصلہ نہ کرسکا کہ تالاب کی طرف پشت کرکے وہ کس شے کو دیکھ رہی ہے۔بعد کی حرکات دیکھنے کے بعد ہی یہ عقیدہ حل ہوسکا۔قیاس یہ ہے کہ اطراف میں جو جھاڑیاں اور پتھر پھیلے ہوئے تھے،وہ ان کا جائزہ لے رہی تھی کہ ان کے پیچھے کوئی درندہ تاک لگائے تو نہیں بیٹھا۔(جاری ہے)