بدزبانی، کردار کشی اور بار بار کی  دھمکیاں 

 بدزبانی، کردار کشی اور بار بار کی  دھمکیاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سیاست کاری اپنے علاقے، محلے،شہر،ڈویژن ،صوبے اور ملکی سطح کے مقامات اور اختیارات پر مبنی ہوتی ہے۔ان علاقوں میں شہری اور دیہاتی حلقے ہو سکتے ہیں۔ ان جگہوں پر متعلقہ حکومتی اداروں کی جانب سے انتخابات کے اعلان کے بعد امیدواروں کا متعلقہ اصولوں کے تحت میدان میں آکر اپنی انتخابی اہلیت درست ثابت کر کے مقابل امیدواروں کو اپنے حلقوں کے ووٹروں سے حریف امیدواروں سے زیادہ ووٹ لے کر کامیابی سے ہمکنار ہونا ضروری قانونی تقاضا مقرر ہے۔ کم و بیش یہی انداز کار زیادہ اختیارات رکھنے والی بڑی انتخابی نشستوں پر بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ اصول و ضوابط ملکی آئین اور متعلقہ قوانین میں صاف طور پر درج ہیں۔ اگر کبھی ان میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کی جائے تو وہ بھی واضح الفاظ میں متعلقہ تاریخ سے نافذ ہو جاتی ہے۔


سیاسی امور پر عمل درآمد کی ذمہ داری بلا شبہ عوام کے مختلف شعبوں کے بارے میں خاصی احتیاط، محنت اور دیانت داری کی کارکردگی کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر کہیں عدم توجہی اور لاپرواہی کی جائے گی تو ظاہر ہے کہ ایک یا زیادہ منصوبے مطلوبہ شرائط اور ہدایات کے مطابق تعمیر و ساخت کے مراحل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اسی طرح اگر ان منصوبوں کے فنڈز کی وصولی بھی ان کی تفصیل میں شامل شرائط سے مالیت میں کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں بھی کسی متعلقہ اتھارٹی افسر، ٹھیکیدار یا دیگر شامل افراد کی کسی غفلت،کوتاہی یا بدیانتی کی بنا پر ایسی غلط کاری وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ ایسے مسائل وطن عزیز میں تا حال کئی مقامات پر رونما ہوتے رہنے سے قومی خزانے کو کئی منصوبوں میں ہر سال کروڑوں اور اربوں روپے کے نقصانات سے دو چار ہونے کے واقعات کی وجہ سے  وہ منصوبے مکمل نہیں ہو سکے، کیونکہ ان کی مخصوص رقوم کو وہاں خرچ کرنے کی بجائے متعلقہ سیاست کاروں، افسروں اور دیگر اہل کاروں کی ملی بھگت سے خورد برد کر کے اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانے یا اپنے عزیز و اقارب کے ناموں پر مختلف قسم کی جائیدادیں، مثلاً مکانات یا دکانوں کی خرید و فروخت پر سرمایہ کاری کر لی گئی۔ یہی رجحان آج بھی ملک کے مختلف علاقوں اور سرکاری شعبوں میں جاری ہے۔ یوں بدقسمتی سے بد دیانت اور غیر ذمہ دار عناصر پبلک فنڈز کی خیانت کاری اپنے منفی عزائم سے کہیں نہ کہیں کرتے رہتے ہیں۔


ایسے منصوبے ملک بھر میں کسی شہری  یا دیہاتی علاقے میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ملکی مالی وسائل کی اس خوردبرد کے تسلسل سے قومی خزانے کو اپنے اخراجات میں کمی واقع ہونے سے بیرونی مالیاتی اداروں، ممالک یا عطیات دینے والے بین الاقوامی اداروں سے رجوع کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ وہ ادارے یا ممالک اس بارے میں اپنی ضروریات کی ترجیحات کا تذکرہ کر کے اگر قرض دینے پر رضا مند ہو بھی جائیں تو ظاہر ہے ان رقوم کی واپسی کے لئے وہ اپنی مرضی کی کڑی شرائط عائد کرنا ضروری خیال کر کے کچھ رقوم جاری کر دیتے ہیں،لیکن شرائط مذکور کے تحت اکثر اوقات وطن عزیز کے متعلقہ شعبے وہ قرضے بھی اپنی مالی خوردبرد کی روش میں مبتلا رہنے کے تحت ان اداروں یا ممالک کو واپس کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یوں ان قرضوں کی اصل رقوم کے علاوہ سود کی رقوم بھی اتنی ضخیم یا بھاری ہو جاتی ہیں کہ ہم لوگ ان کی واپس ادائیگی بھی کئی بار کرنے کی مالی سکت سے عاری ہوتے رہے، بلکہ اس انداز میں بیرونی قرضوں کا بوجھ ہزاروں ارب روپے بڑھنے سے ہمارے ملکی مقام و احترام میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصی کمی واقع ہو گئی ہے۔ ان حالات میں اہل وطن کو اپنی محنت، دیانت داری، بہتر کارکردگی اور سادگی کی عادات و صفات کو اپنے سرکاری اور نجی امور میں فوری طور پر اختیار کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔


 قارئین کرام جانتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں سیاست کار کشکول کو جلد ختم یا چھوٹا کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے دیکھے گئے ہیں، لیکن اس اچھی خواہش پر عمل درآمد نہ کرنا ایسے رہنماؤں کی واضح نا اہلی اور نا کامی رہی ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ہمارے بعض  سیاسی رہنماؤں کا اس جہاں حریف اپوزیشن رہنماؤں کو بدنام کرنے دھمکیاں دینے اور منافرت سے انہیں ”3 چوہوں“ کے لقب دینا بہت تضحیک اور تحقیر آمیز انداز خطابت ہے، وہاں جواب میں مخاطب حضرات بھی تلخ الفاظ اور القابات استعمال کر سکتے ہیں، لیکن یہ رویہ منفی ہے،جسے  طول دینے یا جاری رکھنے کی بجائے فوری طور پر روک دیا جانا ضروری ہے، بلکہ سیاسی رہنما ملکی مفاد میں ایک دوسرے پر مثبت انداز کی تنقید کریں۔

مزید :

رائے -کالم -