ڈیڈ لاک۔ برف کب پگھلے گی؟

   ڈیڈ لاک۔ برف کب پگھلے گی؟
   ڈیڈ لاک۔ برف کب پگھلے گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہر محب وطن پاکستانی روزانہ یہ امید لگاتا ہے کہ ملک کے حالات بہتر ہو جائیں گے مگر روزانہ کوئی ایسی خبر آ جاتی ہے جس سے یہ امید یں دم توڑ دیتی ہیں۔ ملکی حالات سیاسی حالات کی بہتری کے بغیر اچھے نہیں ہو سکتے، اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن کوئی سمجھنے کو تیار نہیں،اب ایک اور خبر آ گئی ہے کہ عمران خان نے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں 14دسمبر سے سول نافرمانی کی کال دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب وزراء اس کال کا  غول کے انداز میں مذاق اڑائیں گے، یہ پدی اور چہ  پدی کا شوربہ کہیں گے۔ کوئی سنجیدہ نہیں لے گا،پھر جب یہ سول نافرمانی شروع ہو جائے گی،بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زرمیں کمی آئے گی، دیگر معاملات متاثر ہوں گے تو کہا جائے گا دیکھا تحریک انصاف ملک دشمن جماعت ہے، عمران خان ایک خود غرض لیڈر ہیں، کیا اس سے معاملات سنور جائیں گے، حالات بہتر ہو جائیں گے۔ اب مطالبات سکڑ کر دو نکات تک آ گئے ہیں۔ عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کا عندیہ بھی دیدیا ہے اور پانچ رکنی کمیٹی بھی بنا دی ہے۔ مطالبات  ماننا  نہ ماننا تو آگے کی بات ہے مذاکرات کا آغاز تو ہونا چاہیے پہلے پی ٹی آئی کے مطالبات تھے کہ عمران خان کو رہا کیاجائے، مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ مقدمات ختم کئے جائیں،اب جومطالبات سامنے آئے ہیں ان میں پہلا 9مئی اور پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے اور دوسرا تمام انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا کرنے جیسے مطالبات شامل ہیں۔ مذاکرات شروع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا آپ نے دوسرے فریق کے مطالبات مان لئے ہیں۔ سیاست میں یہ ایک راستہ ہوتا ہے جو دیڈ لاک کو ختم کرانے کے لئے نکالا جاتا ہے۔ اب وفاقی وزراء اور حکومت کے مشیران یہ کہہ رہے ہیں 26نومبر کے بعد تحریک انصاف میں یہ سکت نہیں رہ گئی وہ کوئی مزید احتجاج کی کال دے سکے۔ میرے نزدیک یہ ایک احمقانہ سیاسی سوچ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف  نے 13دسمبر کو پشاور میں بڑے جلسے کا اعلان کیا ہے، اب اگر یہ سوچ کر اس جلسے کو اہمیت نہیں دی جاتی کہ پشاور میں جلسے کا وفاقی حکومت کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے تو یہ بھی کوئی دانشمندانہ بات نہیں۔ عوام جہاں بھی نکلیں ان کی آواز سنی جانی چاہیے۔ ملک میں سیاسی بے چینی کا جو پیغام ان سیاسی سرگرمیوں سے بیرون ملک جاتا ہے، اسے اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک عالمی سطح پر پاکستان میں سیاسی استحکام کا پیغام نہیں جائے گا، ہم اپنی داخل کمزوریوں اور معیشت کی زبوں حال پر قابو نہیں پا سکتے۔ یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔

میں نے اپنی شعوری زندگی میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اتنا طویل ڈیڈ لاک کبھی نہیں دیکھا۔ بڑی سے بڑی سیاسی تحریک کے دوران بھی مذاکرات ساتھ ساتھ چلتے دیکھے ہیں کیونکہ سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھی جاتی ہیں اور جاری رکھی جانا چاہئیں، اس سوچ کو بدلنا ہو گا  کہ طاقت کے مسلسل استعمال سے کسی اپوزیشن جماعت کو سرنگوں کیا جا سکتا ہے۔ ایک بڑے سیاسی جماعت کو تو اس طرح ختم کرنے کی کوشش اس کے اندر مزید جان ڈال دیتی ہے۔ تحریک انصاف اگر مینڈیٹ واپس کرنے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے تو یہ حکومت کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔ گویا اب وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ ان مطالبات پر مذاکرات میں جا سکتی ہے جو پیش کئے گئے ہیں اگر حکومتی حلقے اس مخمصے میں مبتلا ہیں کہ تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کئے گئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا ہم نے ان کی حیثیت کو تسلیم کرلیا ہے تو یہ بڑی سطحی سوچ ہے۔ ایک جماعت جو اسمبلیوں کے اندر بھی ہے اور باہربھی اس کی عوامی پذیرائی موجود ہے،اسے اگر اہمیت نہیں دی جائے گی اس کافائدہ نہیں نقصان  ہوگا۔ اس نقصان سے بچنے کا حقیقی راستہ یہی ہے کہ بند دروازے کھولے جائیں۔ حکومت اپنے بھی مطالبات سامنے لا سکتی ہے جس میں مینڈیٹ کو تسلیم کئے جانے اور احتجاج نہ کرنے کے مطالبات بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ دونوں طرف سے برف پگھلے گی تو ملک آگے بڑھے گا۔ حکومت کے لئے اسی دوران ایک اوربحران بھی سر اُبھار رہا ہے۔ مدارس بل کی منظوری کا معاملہ ایک نئی ہلچل کا باعث بن سکتا ہے۔ جے یو آئی نے حکومت کو الٹی میٹم دے دیاہے۔ بل فوری منظور کیا جائے وگرنہ احتجاج کی کال دی جائے گی۔ ظاہر ہے ایسے ہر احتجاج کا رخ اسلام آباد کی طرف ہوتا ہے ا گر اس حوالے سے کوئی لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف رخ کرتا ہے تو اس سے کیسے نمٹا جائے گا، یہ بھی حکومت کے لئے ایک بڑی سردردی کی بات ہو سکتی ہے۔ مسائل کو اگرحل کرنے کی بجائے ٹالا جاتا رہے تو وہ پہاڑ بن جاتے ہیں۔ حکومت کے سامنے بھی اب کچھ چیزیں پہاڑ بنی ہوئی ہیں جن سے آنکھیں چرانے کی بجائے آنکھیں ملانے کی ضرورت ہے تاکہ گرد بیٹھ سکے۔

کچھ عرصہ پہلے تک جب عمران خان یہ کہتے تھے وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں اور اصل مذاکرات طاقتور قوتوں سے ہوں گے تو اس وقت بھی سنجیدہ  حلقے ان کی اس بات کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے تھے کیونکہ حکومت کے علاوہ کوئی دوسری قوت کسی اختیار کے تحت ایک سیاسی جماعت سے مذاکرات کر سکتی ہے۔ اب ایک واضح تبدیلی آئی ہے اور عمران خان حکومت سے مذاکرات کے لئے رضامند ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مذاکرات کے لئے پانچ رکنی کمیٹی بنا کر اس بڑی حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ مذاکرات حکومت سے ہی ہونے چاہئیں۔ بادی النظر میں یہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک بعض وزراء یہ بیان دیتے رہے ہیں کہ ہم تو مذاکرات کے لئے تیار ہیں، عمران خان ہی راضی نہیں ہوتے، اس کا مطلب ہے برف کچھ پگھل گئی ہے،اس کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر کوئی دوسرا واقعہ حالات کو کسی نئی پیچیدگی سے دوچارکر سکتا ہے۔ معیشت کی بہتری کے لاکھ دعوے کئے جائیں،امر واقعہ یہ ہے پاکستان معاشی لحاظ سے بے پناہ دباؤ میں ہے۔آئی ایم ایف کے مطالبے اور شرائط پر عملدرآمد کے لئے دباؤ اب بھی جاری ہے۔ سٹاک ایکسچینج کی بہتری کے جتنے بھی دعوے کئے جاتے رہیں، عوام کی معاشی حالت دن بدن تنزلی کی طرف جا رہی ہے۔ ایک بڑی بیرونی سرمایہ کاری وقت کی اشد ضرورت ہے جو بوجوہ نہیں آ رہی۔ حکومتوں کی بات دوسری ہے،جب تک عام سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کرتا حالات بہتر نہیں ہو سکتے اس کے لئے سب سے اہم شرط استحکام ہے، جس کی طرف پوری ذمہ داری سے توجہ دیئے بغیر یہ منزل حاصل نہیں ہو سکتی۔

مزید :

رائے -کالم -