آج اپنے شوق کرکٹ کا احوال!
مایوسی گناہ ہے، بالکل درست، لیکن جب حالات میں سدھار ہی نہ آئے تو پھر انسان کیا کرے، یہی ہو سکتا ہے کہ کچھ نہ کیا جائے اور دُعا ہی کی جاتی رہے،ملکی حالات سب کے سامنے ہیں، ذرا سی آس بندھتی ہے تو پھر ٹوٹ جاتی ہے۔یوں بھی یوں چاروں اور کچھ سدھرتا نظر نہیں آتا جس کی بنیادی وجہ خلوص کی کمی ہے، مفاد پرستی کا دور دورہ ہے، ملک میں دھونس کا کلچر پیدا کر دیا گیا ہے، چلیں کشتی خدا پر چھوڑ کر لنگر کو توڑ دیتے ہیں کہ یہاں ہم نے خود تو کچھ کرنا نہیں،سب کچھ اللہ ہی کے سپرد ہے،اس لئے آج اپنے شوق والے شعبے کی بات کر لیتے ہیں۔
آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کی میزبانی پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس ہے، میزبانی کے لئے فیصلہ ٹرافی مکمل ہوتے ہی ہو جاتا ہے،مقصد تسلسل کو برقرار کھنا ہوتا ہے، چنانچہ جب گذشتہ چیمپئن ٹرافی ہوئی تو آئندہ کے لئے یہ طے کر دیا گیا کہ میزبان پاکستان ہو گا،اس وقت میزبان بورڈ (پی سی بی) نے قبول کیا تو آئی سی سی کے کسی رکن نے کوئی اعتراض نہ کیا، لیکن جونہی کھیل کے میدان سجنے کا وقت قریب آیا،بھارت نے اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا،اِس سے پہلے نابینا ورلڈکپ کرکٹ کے لئے ٹیم نہ بھیجی اور بھارت کے بغیر ہی ٹورنامنٹ ہوا،اسی طرح بھارتی کبڈی ٹیم بھی نہ آئی اور یوں کھیلوں میں سیاست کا عمل دخل بھی مودی سرکار ہی کے متھے لگا، اِس بار پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے تیاریاں بھی بھرپور طریقے سے شروع ہیں اور کراچی،لاہور کے کرکٹ سٹیڈیم تزئین نو کے مرحلے میں داخل ہیں جبکہ راولپنڈی سٹیڈیم کو بھی شامل کیا گیا ہوا ہے۔ قریباً 72ارب روپے اِن منصوبوں پر لاگت آ رہی ہے۔ مودی حکومت کی طرف سے اپنی ٹیم کو پاکستان نہ بھیجنے کا اعلان کر دیا گیا۔یوں ایک ایسا تنازعہ پیدا کیا کہ ٹرافی کے شیڈول کا اعلان نہیں ہو سکا،حالانکہ صرف دو ماہ رہ گئے ہیں۔
معاملہ آئی سی سی کے پاس ہے جس کے سربراہ اب بھارتی ہیں۔ گزشتے ہفتے کے دوران یہ مسئلہ ہی درپیش رہا۔پی سی بورڈ نے اِس بار بالکل واضح موقف اختیار کیا کہ اگر بھارت کی ٹیم کھیلنے نہیں آئے گی تو مستقبل میں پاکستانی ٹیم بھی بھارت نہیں جائے گی اور اس موقف پر بھرپور سٹینڈ لیا۔ دوسری طرف سے پرانا حربہ اختیار کیا گیا کہ بھارت کی ٹیم اپنے میچ غیر جانبدار وینیو دبئی میں کھیلنے کے لئے تیار ہے۔پاکستان کا جوابی موقف ہے کہ اگر بھارت کی ٹیم کو بھیجنے سے انکار کیا جا رہا ہے تو پھر پاکستان بھی بھارت جا کر نہیں کھیلے گا،اگلے تین ٹورنامنٹ میں میزبانی بھارت کے پاس ہے،اب بھارت کی ٹیم نہیں آتی تو شائقین کی دلچسپی ختم ہو جائے گی، جس کے باعث ٹورنامنٹ کو چھوڑنا ہو گا،یوں یہ تنازعہ اس حد تک آ گیا کہ اب بھارت نے دوسری تجویز کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم بھی اگر بھارت نہ آئے تو وہ بھی اپنے میچ غیرجانبدار وینیو پرہی کھیلے گی، بھارتی میڈیا کے مطابق بالآخر ہٹ دھرمی برقراررکھی گئی کہ بھارتی ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔البتہ عالمی سطح پر خفت مٹانے کے لئے یہ مان لیا گیا ہے کہ پاکستان بھی بھارت نہ آئے اور اپنے میچ کسی تیسرے ملک ہی میں کھیل لے، اگرچہ تادم تحریر یہ سب غیر رسمی طور پر ہو رہا ہے، او ر یہ سب خبریں بھارتی میڈیا چلا رہا ہے،بھارتی بورڈ کی طرف سے تاحال ہاں یا ناں میں جواب نہیں دیا گیا اور آئی سی سی کی میٹنگ پھر ملتوی ہو گئی ہے، جس کا مطلب ہوا کہ بھارت والوں کی نیت خراب ہے ابھی تک شیڈول کا اعلان نہیں ہو سکا تو کھیل کب ہو گا،یہ سب پاکستان بورڈکو نقصان پہنچانے کی چال ہے،ہم تو پہلے ہی اربوں روپے تزئین پر خرچ کرنا شروع کر چکے ہوئے ہیں، بھارتی بورڈکو مودی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے، اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔بہرحال پاکستان کے موقف کو سراہا توجا رہا ہے۔
اِس حوالے سے جو ہونا ہے وہ تو ہو ہی جائے گا۔مجھے آج پھر سے اپنے بورڈ والوں کی توجہ اپنے ملکی معاملات کی طرف دِلانا ہو گی جو اکھاڑ پچھاڑ پچھلے چیئرمین ذکاء اشرف کے دور میں ہوئی اس کی پرچھائیں ابھی تک موجود ہیں،ٹیم بُری طرح ناکام ہوتی رہی تاہم اب صورتحال میں تبدیلی ہوئی ہے،اس کے باوجود جو عمل ماضی میں ہوتا رہا وہ اب بھی جاری ہے کہ کسی نہ کسی اچھے کھلاڑی کو نشانہ بنا کر ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ احمد شہزاد، عمراکمل اور ایسے اور بھی کھلاڑی ہیں جو کھڈے لائن لگا دیئے گئے، اس کے علاوہ بعض کھلاڑیوں کو قبل ازوقت ریٹائر ہونا پڑا۔یہ سلسلہ کیوں اور کس لئے ہوتا ہے اسے پسند نا پسند کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے،ان دِنوں بھی اچھے کھلاڑی نشانے پر ہیں، حالانکہ نئے ٹیلنٹ کے نام پر متعدد پرچی والے کھلاڑی شامل کئے گئے ہیں۔محدود اوورز کھیل کا جارح مزاج کھلاڑی فخر زمان، بابر اعظم کی حمایت میں ایک ٹویٹ کے باعث سزا وار ٹھہرا اور اُسے اب تیسرے ٹورنامنٹ میں بھی شامل نہیں کیا گیا اور ساؤتھ افریقہ جانے والے کھلاڑیوں میں بھی اس کا نام نہیں ہے،اُس کے حوالے سے اب نئی اختراع ہے کہ وہ ایک مخصوص قسم کی بیماری کا شکار ہے اور اس کا علاج جاری ہے۔اس بیماری ے باعث وہ کھیل کے قابل نہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو یہ خبر پہلے کیوں نہ آئی۔اب جنوبی افریقہ کے ٹور سے باہر کر دیئے جانے کے بعد ہی کیوں فیڈ کی گئی؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔
کرکٹ بورڈ میں کئی نئے تجربے کئے جا رہے ہیں اور شاید اکثر کھلاڑی اس کے شکار ہو رہے ہیں۔ بابر اعظم کیسے بچ گیا یہ معلوم نہیں، شاید اس لئے کہ وہ ایک بڑا ریکارڈ ہولڈر کھلاڑی ہے اور اُس سے مزید توقعات بھی وابستہ ہیں، لیکن شاہین شاہ آفریدی پر ”توجہ خاص“ کیونکہ اب اسے ٹیسٹ کرکٹ سے باہر بٹھا دیا گیا ہے اور یوں کھلاڑیوں کی نفسیات سے کھیلنے والا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ دو ٹورنامنٹ اچھے رہے تو زیادہ تجربات شروع کر دیئے گئے ہیں،اب انٹرنیشنل سیریز کو بھی ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کی شکل دے دی گئی ہے جو جنوبی افریقہ کے لئے ٹی20، ایک روزہ انٹرنیشنل اور ٹیسٹ سکواڈ میں شامل ناموں سے ظاہر ہو رہا ہے، دنیا میں اتنی بڑی تبدیلیاں تو اس طرح نہیں ہوتیں، متبادل تیار کئے جاتے ہیں لیکن تھوک کے حساب سے نہیں اور نہ ہی یہ کیا جاتا ہے کہ وقت آئے تو ساجد اور نعمان بڑے کھلاڑی، وہ وقت گذر جائے تو ٹیم سے باہر، کیا یہ دونوں صرف اور صرف اپنے مطلب کی بنائی گئی وکٹوں ہی کے لئے رکھے گئے تھے؟
گذارش ہے کہ اگر میرٹ کا نام لے کر ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر میرٹ کا عمل بھی دکھائیں یہ نہیں کہ انتظامیہ تبدیل ہو تو کھلاڑیوں کا چناؤ بھی نئی پسند نا پسند کی بنیاد پر ہو، اگر کھلاڑیوں کی توجہ ہوئی ہے تو ان پر خوف مسلط نہ کریں، قدرتی انداز رہنے دیں۔