حج اور قربانی کے مقاصد پہ عمل پیرا ہونا ہی  قبول ہونے کی سند ہے

حج اور قربانی کے مقاصد پہ عمل پیرا ہونا ہی  قبول ہونے کی سند ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 علامہ کرامت عباس حیدری
ترجمہ: بے شک صفاو مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں دونوں کا طوف کرے۔
ذولحج کا مہینہ آسمان کی زینت بن چکا اسلام کا پہلا مہینہ محرم اور آخری مہینہ ذالحج ہے یعنی اسلام کا آغاز بھی قربانی اور انجام بھی قربانی ہے حج کا تصور پیدا ہوتے ہیں قربانی کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے اور کیسی خوبصورت فکر ہے کہ صفا و مروہ رمنی کو قربانی بھی درود والوں نے دی ہے اور کربلا کی قربانی بھی درود والے خانوادے  نے دی ہے۔
ذولحج کی یکم دختر رسولؐ سیدہ اور جناب شیر خدا  ؓکے نکاح مقدس سے منسوب ہے جب کہ اس کی 10 عید قربان کہلاتی ہے۔  اگر ہم لفظ عید قربان پر غور کریں تو قربانی کی پیاری چیز کو اپنے سے جدا کرنے کا نام ہے اور جدائی کا کیفیت عید سے کیا تعلق ہے۔
معصوم کی تعریف ہی یہ ہے کہ جو چیز اللہ کی راہ میں قربان کرے وہ صبر کے ساتھ دے شکر کے ساتھ دے اور اس جذبے کی کامرانی کا نام عید ہے قربانی اور حج سنتٍ جناب ابراہم علیہ السلام ہے جو اللہ نے منسوخ نہیں کی۔
جناب ابراہیمؑ جو خلیل اللہ ہیں ان کو خواب آیا کہ میرے راستے میں پیاری چیز قربان کرو تین دن مسلسل یہ خواب آتا رہا آخر خلیل اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو راہ خدا میں قربان کیا جائے اپنے صاحبزادے سے جناب ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو اللہ کی راہ میں قربان کروں تو کیسا لگے گا تو جناب اسماعیلؑ نے فرمایا کہ بابا جان آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔
یہاں حضرت علامہ اقبال نے کیا خوبصورت منتظر کشی کی بیٹا اپنے باپ کی اتنی اطاعت کر رہا ہے حالانکہ اپنی جان بہت پیاری ہوتی ہے فرمایا۔
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
حالانکہ اصل بات یہ ہے نہ تو جناب اسماعیل نے ظاہری مکتب پر علم حاصل کیا اور نہ ہی یہ کسی کا فیض نظر تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ اسماعیل کوئی غیر معصوم عاجز بچہ تھا اور نہ باپ کو ئی غیر معصوم عام باپ تھا ان کی ودیعت میں نبوت اور امامت تھی۔
بی بی ہاجرہ آپ کی حرمت اور استقلال کے کیا کہنے ایک معصوم کی زوجہ اور ایک معصوم کی ماں تھی اللہ نے جناب ابراہیم کی دونوں ازواج مطہرات سے جو نسل جاری کی جناب سائرہ سے قوم بنی اسرائیل جس سے رسول جناب عیسیٰ اور جناب حاجرہ سے بنی عرب جس سے آخری رسول خاتم النبین سرکار محمد مصطفےٰ ؐ ہیں اور ایک طرح سے رسول سے کیا گیا وعدہ سورہ کوثر بھی اس کا سرنامہ ہے سورہ کوثر اصل میں قربانی رسول پہ دلالت ہے جناب ابراہیم ؑ نے بی بی ہاجرہ سے فرمایا کہ اللہ کے  در جانے والی قربانی کو تیار کرو۔ جناب ابراہیم اپنے بیٹے کو لے کر چل پڑے اور منیٰ کے میدان میں اپنے شہزادے کو لٹا دیا آنکھوں پر پٹی باندھی اور گلے پر تکبیر چلا دی تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو اسماعیل مسکرا رہے ہیں اور ایک دنبہ فدیہ بن کر ذبح ہو گیا اس کے باوجود اللہ نے اسماعیل کو  ذبیح اللہ قرار دیا۔
کتنا خوش نصیب تھا وہ دنبہ جو ایک پیغمبرؑ کا فدیہ بن گیا اور اللہ نے اس دنبے کو قیامت تک عید قربان کی یاد بنا دیا اس لئے اسلام میں نسبت کو بہت عزت والا قرار دیا ہے…… اس موقع پر جناب ابراہیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اے پروردگار کیا میری قربانی کو قبول نہیں کیا گیا تو خالق نے فرمایا ابراہم ہم نے آپ کی قربانی کو بڑی قربانی میں تبدیل کر دیا…… اور قربانیوں کا یہ سفر کربلا میں شہادت امام حسین ابن علی ؑ  پہ مکمل ہوا۔
اللہ نے جناب ابراہیم کی قربانی کو سورہ بقرہ میں اس طرح قبولیت کی سند بنایا۔
ترجمہ: یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے ابراہیم کو کلمات میں آزمایا اور کامیاب پایا تو ہم نے انہیں امامت عطا کی اور بولے کیا یہ میری ذریت میں ہی ہو گی سورہ بقرہ آیت 124
یعنی اللہ کی طرف سے دی گئی امامت ابراہیم قربانی کی وجہ سے ہے آج ہم مسلمانان عالم جو فریضہ حج ادا کرتے ہیں اور صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں یہ سنت جناب ہاجرہ ہے اور منیٰ میں قربانی سنت ابراہیم کی یاد ہے یہ خانہ کعبہ بعد میں جناب ابراہیم اور اسماعیل  نے اس کی دیواروں کو بلند کیا اور دعا کی تھی۔ (ترجمہ: اے پالنے والے ہماری سعی کو قبول فرما)
حج صاحب استطاعت پہ فرض ہے اگر ہم حج کے فلسفے پر غور کریں تو بہت سے سبق ہیں امت مسلمہ کے لئے یہاں سے آقا اور غلام کے جانے پر لباس سواری کے معیار میں فرق نہ ہے وہاں جاتے ہی ایک سا لباس پہننا ہوتا ہے اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہی آقا اور غلام کے معیار کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
واحد یہ اعزاز امت مسلمہ کے لئے ہے کہ سچے دل سے توبہ سابقہ گناہوں کی معافی کا سبب بن جاتا ہے حج کے ارکان میں ہم خاص طور پر حجر اسود کو نہیں بھولتے حکم ہے کہ اگر آپ رش کی وجہ سے بوسہ نہ بھی دے سکیں تو دور سے اشارہ کی نیت کرو کہنے کو ایک پتھر ہے لیکن یہ روز قیامت گواہی دے گا تمام حجاج کرام وہاں سے آب زم زم بھی لاتے ہیں جو جد رسول جناب اسماعیل کی ایڑیوں سے نکلنے والا چشمہ ہے یعنی (خالق نے بتا دیا کہ زم زم تو درود والوں) کے پاؤں کا صدقہ ہے۔ہماری طبیعتوں اور روز مرہ کے اعمال زندگی میں تبدیلی آ جانے کا نام حج کی قبولیت ہے……
منیٰ میں جانور ذبح کئے لیکن اگر اندر کی انا ذبح نہ کی تو کیا حاصل رویئے تبدیل نہ ہوئے تو کیا حاصل حج بیت اللہ ہمیں اندر سے تبدیل کرنا چاہتا ہے طواف کرتے ہوئے لبیک لا شریک کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر اللہ کو اللہ نہ مانا جائے کسی غیر طاقت کو جھک کر طاقتِ اِلا کا انکار نہ کیا جائے بھوک معاشرے میں غازی نہیں باغی جنم دیتی ہے حج میں اپنوں کو بھوک پیاس اور ہمدردی کا درس دیا جاتا ہے حج ہمارا فرقہ تفریق اور خودپسندی ختم کرتا ہے۔ ہم طواف کرتے ہوئے وعدہ کرتے ہیں ہم تیرے ہر حکم پہ لبیک کہیں گے۔بہتر ہے آگ جلانے والے زمانے سے لے کر نیٹ کے زمانے کی جدتوں میں ہم نے سیکھا کیا ہے کیا ہم نے حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد تعمیر شروع کی کردار سازی کی یا تنقید کے خنجروں سے انسانیت کو زخمی کرتے رہے بے لباس آنے والا انسان صرف ایک سفید لباس میں واپس جائے گا اگر وہ بھیمیسر ہو سکا تو۔حج اور قربانی کے مقاصد پہ عمل پیرا ہونا ہی حج اور قربانی کے قبول ہونے کی سند ہے آج عالم اسلامی فرقہ واریت، نسل ذات، سیاست اور خود پسندی کے تعصیب سے پاک ہونا پڑے گا اپنے نفس کی خواہشوں سے آزادی ہمیں معرفت کا سیدھا راستہ عطا کرے گی۔ تصویروں سے محبت کرو تاکہ مصور لا شریک کی حرمت کو سمجھ سکو قربانی ہمیں یہ ہی سکھاتی ہے کہ اگر دوسروں کے لئے قربان ہو جاؤ گے تو تاریخ تمہیں مرنے نہیں دے گی۔
برہنہ سروں پہ چادریں دینا سیکھو تاکہ طواف کعبہ میں دکھلائے گئے غلاف کی اہمیت یاد رہے اپنے نفس کو منیٰ کا میدان بنا لو تاکہ ساری اناؤں پہ تقوے کی چھری چلا دی جائے۔ بھوکوں کے لیے دستر خواں سجا دو تاکہ معاشرے میں باغی پیدا نہ ہوں تو مقصد ِ حج اور قربانی مل جائے گا ان میں خدا مل جائے گا اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں عالمِ کے حج و قربانی کو قبول فرمائے آمین۔


ہماری طبیعتوں اور روز مرہ کے اعمال زندگی میں تبدیلی آ جانے کا نام حج کی قبولیت ہے……

مزید :

ایڈیشن 1 -