شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 54
میں ہر لمحہ شیر سے دوچار ہونے کے لئے تیا رآگے بڑھتا گیا۔جھاڑیوں کے درمیان جس مقام سے جانور گزرتے رہتے ہیں،وہاں پگڈنڈی سی بن جاتی ہے۔۔۔میں اس وقت اسی قسم کی ایک پگڈنڈی پر ماگھ نے نشانات دیکھتا رہا تھا۔اچانک ایک لنگور نے خوف کی آواز نکالی۔اگر شکاری ذرا بھی توجہ رکھے اور جنگل کی ان آوازوں کو سننے اور مختلف آوازوں میں تمیز کرنے لگے تو خطر ناک شکار کے سلسلے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
لنگور بڑا ہوشیار جانورہے۔یہ بڑے بڑے قبیلوں کی صورت میں رہتاہے اور ان کی نگرانی ایک بوڑھا سردوگرم چشیدہ لنگور کرتا ہے۔یہ نگران کسی ایسے درخت پر بیٹھ جاتا ہے۔جہاں اسے ہر طرف بخوبی دکھا جا سکے۔خطرہ محسوس ہوتے ہی لنگور خوں ۔۔خوں کرنے لگتاہے اور اس کے ساتھی ہوشیار ہو کر اونچے درختوں پر چڑھ جاتے ہیں۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لنگور کی آواز سن کرمیں اپنی جگہ پر ٹھہر گیا۔سوچنے کی بات یہ تھی کہ اس وقت لنگور کو دو طرف سے خطرہ ہو سکتاہے۔یا تو اس نے کسی شیر کو دیکھا اور یہ آواز نکالی یا مجھے دیکھا اورخطرے کی گھنٹی بجائی۔تحقیق سے یہ مسئلہ حل ہو گیا۔لنگور نے مجھے دیکھ کر ہی خوف کی آوازکی تھی۔کیونکہ جب میں نے اسے دیکھا تو اس کی نظریں مجھ پر ہی تھیں۔
ہماری پیش قدمی بھر شروع ہو گئی۔درخت تن آور اور گھنے تھے،لیکن جھاڑیا ں چھدری تھیں،اس لئے اطراف میں چالیس پچاس گز تک بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔میں ذرا دور ہی تھاکہ کہیں دور پہاڑوں میں شیر کے ڈکارنے کی آواز آئی،ڈکارنے کی اس لئے کہ یہ آواز حملے یا خوف کی نہیں تھی،بلکہ اطمینان اور آسودگی کی تھی۔آواز کسی قدر وقفے سے تین مرتبہ آئی۔لیکن پہاڑوں میں باز گشت کی وجہ سے آواز کا صحیح رخ متعین نہیں کیا جا سکا۔میں اسی جگہ ٹھہر گیا اور کسی مزید آواز کا انتظار کرنے لگا۔۔۔عین اسی وقت ایک چیخ کی آواز آئی، میں جن ساتھیوں کو درخت پر بیٹھا آیا تھا،یہ انھیں کی چیخ تھی۔۔۔دہشت میں ڈوبی ہوئی چیخ ۔۔پھر زور زور سے دھت دھت کر کے کسی جانور کو بھگانے کی آواز سنائی دی۔
میں اوردلاور پہلی چیخ سننے کے بعد ہی آواز کی طرف دوڑ پڑے لیکن اب ایک اور مصیبت نازل ہو ئی۔اچانک دور ریچھ کہیں سے نمودار ہوئے۔۔۔ہم لوگ بھاگے تو انھوں نے خدا جانے کیا سمجھا کہ ’’بڑ بڑ‘‘کرتے ہوئے تعاقب میں دوڑ پڑے۔فاصلہ کوئی پندرہ گز کا ہو گا۔میں نے گھوم کر دیکھا تو ایسا معلوم ہواجیسے دو سیاہ گولے لڑھکتے ہوئے آرہے ہوں۔یہ سوچنے سمجھنے کا وقت نہیں تھا۔تین سو پچھتر میگنم بھری ہوئی ہاتھ میں تیار ہی تھی۔میں نے ٹھہرکر رائفل اٹھائی اور آگے آنے والے ریچھ پر فائر کردیا۔۔وہ اپنی جگہ پر ہی ڈھیر ہو گیا۔دوسرا فائر ہوا،مگر گولی دوسرے ریچھ سے ذرا آگے زمین پر پڑی اور ایسا غبار اٹھا کہ ریچھ اس میں چھپ گیا۔گولی اس کے لگی تو نہیں،لیکن اسکی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھی۔۔ابتک وہ ہمارا تعاقب محض حمایت میں کرتا آرہا تھا۔غالباً اب سمجھ گیا ہو گا کہ یہ معاملہ بالکل ہی مختلف ہے۔۔۔لہذا وہ گھوم کر قریب کی جھاڑیوں میں گھس گیا۔
میں پھر درخت کی طرف بھاگااور وہاں جاکر میں نے دیکھا کہ ان دو آدمیوں سے ایک آدمی درخت کے نیچے کھڑاہے۔میں انھیں درخت سے نیچے نہ اترنے کی تاکید کر کے گیا تھا۔مجھے بہت غصہ آیا۔اگر ایسے موقع پر آدم خور آکر اسے دبا لیتا تو گیا ہوتا۔۔لیکن وہ بیچارہ بھی مجبور تھا۔میں نے نظر اوپر اٹھائی تو دیکھتاہوں کہ ایک تیندوا درخت پربیٹھے ہوئے شخص کو شانے سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہا ہے۔میری رائفل تو تیا ر تھی ہی ۔احتیاط سے نشانہ لے کر فائر کیا،لیکن گولی خالی تھی۔۔غالباً اتنی دوڑ دوڑ نے اور پھر ایک ساتھی کو ہلاک ہوتے دیکھنے کے بعد میرے اعصاب فائر کیلئے تیار نہیں تھے۔بہر حال فائر کے دھماکے سے گھبرا کر تیندوے نے اسکو چھوڑ دیااور کود کر ایک گھنے جھنڈ میں چلا گیا۔۔
میں نے اس کو فوراً نیچے اترنے کی ہدایت کی۔وہ کافی زخمی ہو گیا تھااور بھوپال کے سرکاری ہسپتال میں چھ ماہ زیر علاج کے بعد بچ گیا۔لیکن ایک ہاتھ گنوا بیٹھا۔۔اس کے شانے کی ہڈی تیندوے نے چبا ڈالی تھی۔
ان دونوں واقعات یعنی ریچھ کے حملے اور گاؤں والے کے مجروح ہونے کی وجہ سے میں کچھ دل برداشتہ ہوگیا تھا۔ شیر کے اب اس علاقے میں ٹھہرنے کا کوئی امکان نہیں تھا، لہٰذا میں نے کھلگے کے طور پر باندھی ہوئی بکری بھی کھلوا کر ساتھ لے لی اور سٹیشن واپس آگیا۔ اس دوران میں کسی تازہ واردات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔(جاری ہے )