شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...آخری قسط
اس آدم خور نے ریلوے سٹیشن کے قریب کئی وارداتیں کی تھیں۔ وہ اکثر رات کو پلیٹ فارم پر بھی آجاتا تھا جن دنوں میں وہاں مقیم تھا ان دنوں چاندنی راتیں تھیں۔ ایک رات، جبکہ مطلع صاف تھا اور موسم خوشگوار، میں رائفل لے کر کوارٹر سے نکلا اور پلیٹ فارم پر ٹہلتا ہوا لائن کے ساتھ ساتھ آﺅٹرسگنل تک چلا گیا۔ رات کے وقت آدم خور کے معاملے میں اتنی غیر معمولی جرا¿ت اچھی نہیں سمجھی جاتی لیکن میں نے یہ حرکت دووجوہ کی بنا پر کی۔ اوّل یہ کہ چاندنی بہت صاف تھی۔ دور تک کی چیز نظر آرہی تھی۔ دوسرے جس لائن پر میں چل رہا تھا وہاں سے دور دور تک کوئی جھاڑی وغیرہ نہیں تھی جو خطرناک ثابت ہوتی۔ اس رات میں تین چار گھنٹے لائن کے ساتھ ساتھ گھومتا رہا لیکن کچھ نظر نہ آیا۔
دوسرے اور تیسرے دن بھی چاندنی راتیں تھیں۔ میں نے دونوں راتیں اسی طرح گھوم کر گزاریں اور ہر لمحہ اس خرگوش صفت شیر سے مقابلے کو تیار رہا لیکن کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آئی۔ آخر تھک ہار کر ایک صبح اپنی جیپ پر بیٹھا اور بھوپال کی طرف چل دیا۔ اتنے روز کی تھکاوٹ، مایوسی اور فکر میرے ساتھ تھی۔ شکار کچھ بھی نہیں تھا اور میں سوچتا جارہا تھا کہ اگر راستے میں کوئی چیتل یا ہرن ہی نظر آجائے تو کم از کم کچھ گوشت تو گھر پہنچے۔ میں کبھی خالی ہاتھ گھر نہیں جاتا۔
میرے والد صاحب مرحوم ایسے موقعوں پر مجھے بہت شرمندہ کرتے تھے۔ ان کی تاکید تھی اور صحیح تھی کہ جب جنگل میں شکار کی نیت سے داخل ہوئے تو کچھ نہ کچھ مارنا ضروری ہے۔ جو لوگ خالی ہاتھ آتے ہیں، وہ شکاری نہیں ہوتے۔
سوکھی سوئیاں سے بھوپال جانے والی سڑک پہاڑیوں اور وادیوں کے پیچ و خم میں چکر لگاتی ہوئی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص سٹیشن سے کار کے ذریعے سڑک کے راستے چلے اور دوسرا شخص مختصر جنگلی راستوں سے سڑک تک آئے تو وہ کار کو راستے میں پکڑسکتا ہے۔ یہی ہوا۔ ابھی میں پانچ میل ہی گیا تھا کہ سڑک کے ایک ڈھلان پر دو آدمی کھڑے نظر آگئے جو ہاتھ ہلا ہلا کر مجھے روکنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس وقت جیپ دلاور ڈرائیو کررہا تھا۔ اس نے جیپ روکی تو انہوں نے بتایا کہ آج صبح اسٹیشن سے چار میل کے فاصلے پر شیر نے ان کے ایک ساتھی کو ہلاک کیا اور جنگل میں گسھیٹ کر لے گیا۔ ان لوگوں نے شیر کو خود دیکھا تھا اور میرے قیاس کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ وہ اچھل اچھل کر چلتا ہے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 54
میرا شوق پھر جوان ہوگیا۔ میں نے ان دونوں کو جیپ میں بٹھایا اور بارہ منٹ میں ریلوے سٹیشن پہنچ گیا۔ یہاں سے اس مقام تک پہنچنے میں ریلوے سٹیشن پہنچ گیا۔ یہاں سے اس مقام تک پہنچنے میں جہاں شیر نے اس دیہاتی کو ہلاک کیا تھا، ایک گھنٹے کے قریب لگ گیا۔ جائے واردات پر خون کے دھبے اور مقابلے کے نشانات موجود تھے۔
میں نے یہاں اپنے ساتھیوں کو ٹھہرنے کا حکم دیا کیونکہ آدم خور کی تلاش کے موقع پر زیادہ آدمیوں کی موجودگی نہ صرف شیر کو ہوشیار کردیتی ہے، بلکہ بیشتر لوگوں کو خطرے میں مبتلا کردیتی ہے۔ میں تنہا لاش کے گھسیٹے جانے کے نشانات اور دوسری علامات کا سہارا لیتا آگے بڑھتا گیا۔
شیر کے پیروں کے نشانات اسی قسم کے تھے جومیں بیان کر چکا ہوں۔ وہ لاش اُٹھا کر بھی اسی طرح پھدک پھدک کر گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اتنا بوجھ لے کر زیادہ دور نہیں جاسکتا۔ تقریباً تین سو گز چلنے کے بعد اس نے لاش کو زمین پر رکھا تھا اور غالباً اس وقت تک مقتول میں کچھ دم تھا کیونکہ یہاں ہاتھ پر پٹخنے کی علامات تھیں۔
دوسو گز اور چل کر شیر نے اپنے شکار کو زمین پر رکھ کر پھر جھنجھوڑا تھا۔ مقتول آدمی کی سخت جانی تعجب خیز تھی لیکن اس رگڑے کے بعد یقیناً اس کا دم نکل گیا ہوگا۔ اس جگہ سے شیر کسی قدر مغرب کی طرف گھوم کر پہاڑی کے اوپر چڑھ گیا تھا۔ چڑھائی اتنی تھی کہ مجھے اوپر جانے میں خاصی دقت ہوئی۔
چوٹی پر پہنچ کر خون کے نشانات کم اور لباس کی دھجیاں زیادہ ملیں۔ شیر اب گھوم کر جنوب کی طرف پہاڑ کے نیچے اترگیا تھا۔ تعجب یہ ہے کہ وہ اپنی معذوری کے باوجود لاش کو اٹھا کر اتنی دور آگیا۔ بہرحال جس وادی میں وہ اترا تھا، وہ گھنی اور شادات جھاڑیوں سے اٹی پڑی تھی۔ میں اب تک تو درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ لے کر احتیاط سے رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہا تھا، لیکن یہاں اندیشہ تھا کہ وادی میں اترتے وقت شیر نے مجھے دیکھ لیا یا آہٹ سن لی تو وہ لاش کو چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔
میں جس جگہ اس وقت کھڑا تھا، وہاں سے وادی تقریباً تین سو گز گہرائی میں تھی اور پانی کی ایک لکیر سی درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان بہتی نظر آرہی تھی۔ پانی دیکھ کر میرے اس یقین کو تقویت پہنچی کہ شیر اسی جگہ کھڑا ہوگا۔ اس خیال کے ساتھ ہی مَیں نے نیچے اترنا شروع کیا۔ چڑھنے میں مجھے جتنی محنت کرنا پڑی، اترنے کے لئے اس سے زیادہ احتیاط اور محنت کی ضرورت تھی کیونکہ ڈھلان پر چھوٹے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے۔ اگر کوئی چھوٹا بڑا پتھر سرک جاتا اور ذرا سی بھی آواز ہوتی تو شیر کو ہوشیار ہونے کا موقع مل جاتا۔
آخر کار آہستہ آہستہ میں وادی میں اتر ہی آیا۔ یہاں ایک چٹان کے کنارے پر خون کا نشانہ بھی نظر آگیا۔ ابھی میں چند ہی قدم چلا تھا کہ ایک بار میری چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجائی یہ شیر کی قربت کی علامت تھی۔ چند قدم اور بڑھ کر مَیں نے بغور اطراف کی جھاڑیوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ بظاہر تو ایسی کوئی جگہ نہیں تھی، جہاں شیر چھپ سکتا ہو لیکن اچانک ہڈی توڑنے کی آواز آئی اور پھر چبانے کی، شیر قریب ہی تھا، بالکل قریب، میں شکاری جوتا پہنے تھا۔ اس لئے میری حرکت سے کوئی آواز نہیں ہوئی۔
چند لمحے بعد ہڈی توڑنے کی آواز دوبارہ آئی۔ آواز کا فاصلہ بیس گز سے زیادہ نہیں تھا۔ میں فوراً درختوں کی آڑ لیتا ہوا آواز کی طرف بڑھنے لگا۔ رائفل کا سیفٹی کیچ کھلا ہوا تھا اور رائفل دونوں ہاتھوں میں اس طرح دبتی تھی۔ چشم زدن میں شانے پر آجائے۔
چند گز کے آگے بڑھ کر مَیں نے جھاڑی سے سر نکال کر جھانکا تو سامنے شیر بیٹھا تھا۔ سوکھی سوئیاں کا مشہور آدم خور، ایک سو چھبیس انسانی جانوں کو تلف کرنے والی بلائے بے درماں، میری رائفل کی زد میں تھی۔
شاید اس کی چھٹی حس نے اسے بھی ہوشیار کردیا تھا کیونکہ وہ کھانا چھوڑ کر چاروں طرف بغور دیکھ رہا تھا۔ ادھر میں نے رائفل شانے سے لگائی، ادھر وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور خرگوش کی طرح اچھل اچھل کر چلنے لگا۔
اس کی رفتار غیر متوازن تھی اور تکلیف دہ بھی۔ دونوں شانے قطعی حرکت نہیں کرتے تھے۔ وہ آگے بڑھنے کے لئے پہلے کمر جھکاتا، پھر پچھلے پنجے آگے بڑھاتا اور اس کے بعد اچھل کر کمر سیدھی کرلیتا۔ اس طرح اگلے دونوں پنجے آگے بڑھ جاتے۔ ایسی حالت میں جنگل کے تیز و طرار جانوروں کو ہلاک کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی اس لئے مجبوراً اسے آدم خوری اختیار کرنی پڑی۔
زیادہ انتظار یا رحم کا وقت نہیں تھا۔ میں نے گردن اور سر کے جوڑ کا نشانہ لیا اور دماغ کی طرف جانے والی لائن کا اندازہ کرکے ٹریگر دبادیا۔ اس کے ساتھ ہی شیر ایک ہلکی ”غوں“ کرکے کسی قد ر اچھلا اور گرگیا۔
اس کی ہلاکت سے مجھے دوگونہ خوشی ہوئی۔ نہ صرف خلق خدا کو ہی اس موذی سے نجات ملی بلکہ خود یہ بے زبان جانور بھی تکلیف دہ زندگی سے چھوٹ گیا۔
ختم شد