جنگلی مزاج ذی شعور انسان
ایک شخص کے کتے نے دوسرے شخص کا پالتو پرندہ کھا لیا، پرندےکے مالک نے کتے کو فائرنگ کرکےمار دیا۔ فریقین کے درمیان تکرار ،ہاتھاپائی اور بعد میں فائرنگ ہوئی اور نیتجے میں تین افراد قتل اور پانچ زخمی ہوئے۔یہ واقعہ جولائی 2021میں پیش آیا، اس جیسے دسیوں واقعات روازنہ کی بنیاد پر میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔سوچا جائے کہ آخر اتنی معمولی سی بات کے لیے ایک انسان دوسرے کے قتل پر کیوں آمادہ ہوجاتاہے؟ اس سوال کا جواب ہر ذی شعور انسان یہی دے گا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم ِبرداشت اس کی بنیادی وجہ ہے۔
ہمارا پورا معاشرہ اور ہماری پوری قیادت عدمِ برداشت کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔گالی دینا اور تھپڑ مارنا ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت کرنے اوراس پر کمپرومائز کرنے کی بجائے ہم ہر بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔یہی حال ملک کے سب سے بڑے انتظامی ادارے پولیس میں بھی جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے اداروں میں بھی عدمِ برداشت کا فقدان ہے۔ہماری تاریخ عروج وزوال سے بھری پڑی ہےمسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہماری قوم کا قبلہ اور سمت درست کرنے کی ضرورت ہےیا کہہ سکتے کہ پوری قوم کو ’’ایجوکیٹ‘‘ کرنے کی ضرورت ہے۔جب تک قوم کے اندر شعوروآگہی پیدا نہیں ہو گی قوم کا مزاج جنگلی ہی رہے گااور یاد رکھیے جنگل میں انسان نہیں جانور رہتے ہیں۔ایک معاشرے میں بہترین کردار ادا کرنے کے لیے قوم کے ہر فرد کو اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا ہوگا ۔ میں جب پاکستان اور یورپی معاشرے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتی ہوں تو مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ ہم ہفتوں نہیں بلکہ صدیوں کے حساب سے ترقی یافتہ اقوام سے معاشی اور معاشرتی طور پر بے حد کمزور ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے مذہبی رہنما قوم ونسل کی تربیت کرتے مگر وہ خود فرقہ بندیوں میں بٹ کر درس گاہوں کو مورچہ بندیوں میں تبدیل کرنے میں مصروف عمل ہیں اور آج پورا معاشرہ عدمِ برداشت ،عدمِ مساوات اورعدمِ اخلاقیات کا شکار ہے۔ جس طرف نظر دوڑائیں ہمیں معاشی بے راہ روی ہی نظر آئے گی گھر ہو، سکول ہو کالج ہو، کھیل کا میدان ہو ، عدالت ہو، پولیس سٹیشن ہو یا اقتدار اعلی کا کمرہ ہر جگہ عدم برداشت دیکھنے کو ملے گی ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ پھر چاہے وہ رکشہ ڈرایئور ہو یا بڑی گاڑی میں بیٹھا ہوا افسر ہر شخص ہی عدم برداشت کا شکار ہے۔ عدم برداشت سے مراد کسی بھی شے کو برداشت کرنے کی کمی ہے۔ کسی انسان کے اندر کسی بھی چیز کو تحمل اور حوصلے سے برداشت کرنے کی کمی کا نام ہے۔ یہ درحقیقت رواداری، صبر و تحمل اور بردباری کی ضد ہےیہ ایک صفت ہے جو اس زمین پر موجود بیشتر انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ وہ منفی رویہ ہے جس سے آج ہر انسان پریشان ہے۔ عدم برداشت ہر کسی کی زندگی میں دیمک کی طرح شامل ہے اور روز بروز اسے ختم کرنے میں سرگرم ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات بھی ہیں جن سے پورا معاشرہ متاثر نظر آتا ہے۔ صرف نوجوان نسل یا غربت کی چکی میں پسا ہوا انسان ہی نہیں بلکہ ہماری پولیٹیکل پارٹیز میں بھی یہ وبا عام ہے۔ اقتدار کی جنگ میں یہ اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔ ایک پارٹی کے لوگ دوسری پارٹی کو نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں گالی گلوچ اور ہاتھا پائی سے بھی گریز نہیں کرتے معاشرے میں بڑھتے عدمِ برداشت کی مختلف وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ اس لیے خود پسندی ، حسد، جلد بازی، اوردوسروں کی تحقیر سمیت لاتعداد روحانی امراض پیدا ہو رہے ہیں، جو عدمِ برداشت کی جڑ ہیں۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں،کسی کو زندگی کے ایک پہلو میں مہارت حاصل ہوتی ہے ،تو کسی کو دوسرے پہلو میں۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں دوسروں سے مقابلہ کی فضا کچھ ایسے پروان چڑھی ہے کہ ہر ایک دوسرے سے اس کی صلاحیتیں جانے بنا اعلیٰ کارکردگی کا خواہاں ہوتا ہے،مثلاً بچوں سے ان کی دلچسپی جانے بنا،ہر مضمون میں اچھے گریڈز کا مطالبہ کیا جاتا ہےاور دوسرےبچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی بھی عدمِ برداشت کا ایک سبب ہے،جب کوئی باپ باوجود بارہ گھنٹے مزدوری کرنے کے، اپنے بچوں کو اچھے ادارے میں تعلیم تو کیا دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے پاتا یا کوئی بیٹا بستر پر پڑے اپنے بیمار والدین کے علاج نہیں کرواپاتا،تو رفتہ رفتہ وہ برداشت کھو دیتا ہے۔اسی طرح مہنگائی کے اس دور میں شادی وغمی کے موقع پر بےجا رسوم ورواج بھی انسان کے برداشت کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے میں بڑھتے عدمِ برداشت کے اثرات صرف فرد تک محدود نہیں رہتے ،بلکہ پورے معاشرے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات ازدواجی زندگی بھی کسی ایک فریق کی طرف سے عدمِ برداشت کا مظاہرہ کرنے کے بعد متاثر ہوتی ہےجس سے رشتہ کو برقرار رکھنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہمارےمعاشرے میں عدمِ برداشت کی وبا مکمل طور پر پھیل چکی ہے، مختلف سرکاری و غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح 65 فیصد تک پہنچ گئی ہے،حالانکہ70کی دہائی میں یہی شرح 13فیصد تھی ایک مشرقی اسلامی معاشرے میں خاندانی زندگی کے لیے یہ اعداد و شمار موت سے کم نہیں ۔ صرف یہی نہیں والدین کے دیکھا دیکھی بچے بھی اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں ۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں