امریکی سٹرٹیجی کا پس منظر

  امریکی سٹرٹیجی کا پس منظر
  امریکی سٹرٹیجی کا پس منظر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انسان، نیکی اور بدی کا ایک عجیب و غریب پیکر ہے۔ اس میں شیطانی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں اور رحمانی خوبیاں بھی۔ وہ جنگیں بھی خود ہی چھیڑتا ہے اور پھر خود ہی امن کا راگ الاپنے لگتا ہے۔ روس اور یوکرین آج کل ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان دونوں میں مقابلے کی کوئی بھی قدر مشترک نہیں لیکن یہ مقابلہ جاری ہے۔ اگر باہر کی دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ یوکرین، امریکہ اورناٹو کے سپلائی کردہ ہتھیاروں سے ایک عالمی سپرپاور سے مصروفِ کارزار ہے تو کیایوکرین کی فوج کا کوئی ہوش مند کمانڈر یہ نہیں دیکھتا کہ اس انمل بے جوڑ جنگ کا کوئی جواز نہیں  اور یوکرین اپنے لاکھوں فوجی افسروں اور جوانوں کو پھر بھی جنگ کی بھٹی میں کیوں ڈال رہا ہے؟…… آخر کار تو حق کا بول بالا ہو کر رہتا ہے اور باطل شکست کا سامنا کرتا ہے۔

روس اور یوکرین کی جنگ فروری 2022ء میں شروع ہوئی تھی۔ یوکرین، مغربی ہتھیاروں کو استعمال میں لا کر اب تک اپنے کئی لاکھ فوجی قتل کروا چکا ہے اور اب اسے یہ ہوش آیا ہے کہ صرف ہتھیاروں اور گولہ بارود سے کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ اصل مقابلہ ان انسانوں کے درمیان ہوتا ہے جو نیکی اور بدی کے پیکر ہیں۔

آج یوکرین کے سیاہ و سفید کا مالک زیلنسکی(Zelensky) ہے جس کا ایک حالیہ بیان چشم کشا ہے۔ جب سے نیا امریکی صدر، ٹرمپ عہدۂ صدارت پر فائز ہوا ہے اور اس نے بڑے بڑے انقلابی اقدامات کا اعلان کیا ہے، زیلنسکی کو معلوم ہو گیا ہے کہ یوکرین کا انجام نوشتہء دیوار ہے۔ چنانچہ وہ آج فریاد بہ لب ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں نے اسے دھوکا دیا ہے۔ اسے اب پتہ چلا ہے کہ یوکرین اور روس کی جنگ دراصل امریکہ کے ماضی کے ایک سٹرٹیجک ویژن کی آئینہ دار ہے۔

ہم ذرا ماضی کی طرف لوٹتے ہیں اور دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام کی بات کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگست 1945ء میں امریکہ نے جاپان پر جوہری حملہ کر دیا تھا اور اس طرح خطہء بحرالکاہل میں یہ جنگ ستمبر 1945ء میں ختم ہو گئی تھی۔(ویسے یورپ میں یہ جنگ اپریل 1945ء میں اس وقت اختتام پذیر ہو گئی تھی جب برلن میں ہٹلر نے خودکشی کرلی تھی)

اس عالمی جنگ میں جنرل آرنلڈ (Arnold) امریکی فضائیہ کا ائر چیف مارشل تھا۔ اسی نے بی۔29طیاروں میں ایٹم بم رکھوا کر امریکہ سے جاپان بھیجے تھے اور اس طرح جنگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا۔ اسی آرنلڈ نے نومبر 1945ء میں ایک مقالہ لکھا تھا جس کے مندرجات کافی لمبے چوڑے اور ضخیم ہیں۔ میں قارئین کو اس کی تفصیلات بتا کر بور نہیں کرنا چاہتا  لیکن اس نے امریکہ کے لئے آنے والی جنگوں میں شامل ہونے کا ایک ایسا ”نسخہ“ تجویز کیا تھا جو امریکی سول اور فوجی ناخداؤں نے آج بھی پلے باندھ رکھا ہے۔ اس نے لکھا تھا:

”جب بھی کوئی بڑی جنگ ختم ہوتی ہے تو بے شمار جنگی ساز و سامان اور ہتھیار بچ جاتے ہیں۔ انہی پر ہم آنے والی اگلی جنگ کی ٹریننگ کرتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی ٹریننگ، زمانہء امن میں، مستقبل کے لئے بے سود ہوگی اور فضائیہ کے ضمن میں تو یہ اور بھی بے سود ہوگی۔ ہمیں ہر سال اپنے اس بچے ہوئے سامانِ جنگ کا چوتھائی حصہ بدل دینا چاہیے تاکہ چار برس میں ہمارے پاس بالکل نیا سامانِ جنگ موجود ہو“۔

امریکہ نے آج تک اپنے اس جرنیل کی بات عزیز از جان رکھی ہوئی ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم نے اپنے ہمسائے افغانستان میں امریکہ کی ”آمد و رفت“ کے 20برسوں میں بھی دیکھ لیا ہے۔ امریکہ نے جو ہتھیار اور گولہ بارود ان دو عشروں میں صرف کیا تھا اور جو باقی چھوڑ کر افغانستان سے نکل گیا تھا تو اس نے گویا اپنے پرانے سامانِ جنگ کو خرچ کرکے نئے سامانِ جنگ کو اپنے ہاں سٹور کرنے کا بندوبست کرلیا تھا۔

امریکہ نے یوکرین کو اپنا اربوں ڈالر کا جو اسلحہ بھیجا وہ اب چونکہ اپنی لائف کے اختتام کو پہنچ گیا تھا اس لئے اس نے اب یہ جنگ بندکر دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ بائیڈن نے یوکرین کو جو اسلحہ سپلائی کیا تھا یا اپنے ناٹو اتحادیوں کی طرف سے سپلائی کرنے کا جو پروگرام بنایا تھا وہ اس روس۔ یوکرین کی تین سالہ جنگ میں پایہء تکمیل کو پہنچ گیا ہے…… اور جناب زیلنسکی کی آنکھ اب جا کر کھلی ہے۔

زیلنسکی اب اعلان کر رہا ہے: ”یوکرین کی یہ جنگ امریکی ”ڈیفنس انڈسٹریل کمپلیکس“ کے لئے گویا ایک عطائے ربانی تھی جس میں اس نے اپنے پرانے اسلحہ جات اور جنگی ساز و سامان کو ہمیں سپلائی کرکے اپنے لئے جدید اسلحہ جات تیار کرنے کا اپنا پروگرام مکمل کرلیاہے“۔

زیلنسکی نے یہ بھی کہا ہے کہ واشنگٹن اب تک کیف (Kiev)کو جو اسلحہ سپلائی کرتا رہا ہے وہ بے کار تھا اور اس کے لئے فرسودہ بلکہ متروک تھا۔ زیلنسکی کا یہ انٹرویو کہ جس میں اس نے یہ ”انکشاف“ کیا ہے وہ چند روز پہلے ایک برطانوی صحافی مورگن (Morgan) سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ہے۔ اس نے اعتراف کیا  ہے کہ امریکہ کو جو ادارے اسلحہ جات پروڈیوس کرتے ہیں انہوں نے اپنے پرانے اسلحہ جات کو یوکرین کے ہاتھ فروخت کرکے، اسی رقم سے جدید اسلحہ جات کی پروڈکشن مکمل کرلی ہے!

روس کے ساتھ، ان ایام میں یوکرین کی جو جنگ ہو رہی ہے اس میں امریکی اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ ٹیسٹ کررہا ہے کہ اس  کے کون کون سے اسلحی نظاموں کا جواب روسی اسلحہ ساز ادارے فراہم کررہے ہیں۔ چلو اچھا ہوا کہ یوکرینی صدر کو اب ہوش آیاہے اور اس نے برطانوی صحافی کے انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ: ”امریکہ نے اپنے متروک ساز و سامانِ جنگ کو ہمارے ہاتھ فروخت کرکے اپنے پرانے اسلحہ کی تجدید کرلی ہے۔ امریکہ نے اس جنگ میں یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ اس کا کون سا اسلحہ، اس کے اصل دشمنوں (روس اور چین) کے خلاف کارآمد ثابت ہوا ہے اور کون سا نہیں ہوا۔ 

زیلنسکی نے ایک اور بات بھی بڑے پتے کی کہی ہے۔ وہ کہتا ہے: ”اب چونکہ اس تین سالہ جنگ میں امریکی اور مغربی یورپی اسلحہ جات کا استعمال دیکھ لیا گیا ہے، اس لئے ٹرمپ نے امریکی عوام سے یہ وعدہ اپنی انتخابی مہم میں کر دیا تھا کہ وہ برسرِ اقتدار آکر روس۔ یوکرین جنگ میں امریکی کردار کو ختم کر دیں گے۔ اب امریکہ کچھ برس تک تو کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑے گا لیکن تین چار سال بعد کوئی ”نیا ٹرمپ“ آکر جنگ کی یہی روائت دہرا دے گا“۔

زیلنسکی کو جو حقیقت اپنے لاکھوں ٹروپس مروا کر معلوم ہوئی تھی وہ آنے والے چار سالوں میں کسی نئے صدر امریکہ کو کسی دوسرے یوکرین پر حملہ کرکے اور اس پر قبضہ کرنے کے بعد معلوم ہو جائے گی۔

صدر ٹرمپ نے غزہ پر قبضہ کرنے کا جو عندیہ دیا ہے وہ خالی از علت نہیں۔ اس کی مذمت سعودی عرب نے بھی کی ہے اور پاکستان نے بھی کر دی ہے۔ پاکستان کو یہ مذمت اس لئے بھی کرنی پڑی ہے کہ ٹرمپ نے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد اور تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی اب تک پاکستانی فوج یا کسی سول ادارے سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ پاکستان، امریکہ کا ”نان نیٹو اتحادی“ تھا اور ایک زمانہ یہ ہے کہ امریکی صدور چپ رہتے ہیں۔ (بائیڈن نے بھی اپنے چارسالہ دورِ اقتدار میں کبھی کسی پاکستانی صدر یا وزیراعظم سے کوئی براہِ راست رابطہ نہیں کیا تھا)

ہمارے وزیراعظم اور ہمارے صدر نے امریکی صدر کو 20جنوری کو عہدۂ صدارت پر فائز ہونے کی مبارکباد دی تھی۔ لیکن جب وہاں سے کوئی ”رسید“ نہیں ملی تو ہمارے صدرِ محترم نے چین کا دورہ کیا ہے اور شاید یہ دکھانے کوکیا ہے کہ پاکستان امریکی بلاک سے نکل کر چینی اور روسی بلاک میں بھی جا سکتا ہے…… لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مفادات ”امریکہ سنٹرک“ ہیں۔ مجھے یہ تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ پاک۔ امریکہ تعلقات کی تاریخ کتنی پرانی  لیکن کتنی ”دردناک“ بھی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم اسے ”عبرت ناک“ نہیں سمجھتے۔

ہم کسی نئے بلاک میں داخل ہونے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے کہ پاکستان کے مفادات کا کیف و کم کس بلاک سے وابستہ ہے۔ امریکہ تو کسی بھی ملک کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتا۔ اور تو اور مغربی یورپ بھی ٹرمپ کی پالیسیوں سے (زیرِ لب ہی سہی) شکوہ کناں ہے۔ پاکستان لاکھ جوہری ملک سہی لیکن ماضیء قریب میں جو ”افواہ“ اڑی تھی کہ پاکستانی میزائل، امریکہ تک مار کر سکتے ہیں تو اس ”کالیے“ کا کیا بنے گا؟…… ہمارا میڈیا ایک ”بادشاہ میڈیا“ ہے، اس کو کون سمجھائے کہ ہمارا امریکہ سے کیا مقابلہ؟ ہم نہ تو آنکھیں کھول سکتے ہیں اور نہ بقولِ اقبال زمین دیکھ سکتے ہیں، نہ فلک دیکھ سکتے ہیں اور نہ فضا کا مشاہدہ کر سکتے ہیں!

مزید :

رائے -کالم -